اسلام آباد : سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی لائیو سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 15 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
وقفے کے بعد اٹارنی جنرل نے درخواستوں کے ناقابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل کا آغاز کردیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ قانون عوامی اہمیت سے متعلق ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا اس قانون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ درخواستیں کوئی عوامی مفاد کا معاملہ اٹھا رہی ہیں؟میرے فاضل دوستوں نے پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی پر بات کی۔پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون سے ادارے میں جمہوری شفافیت آئے گی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 1973 کے آئین میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں۔ اٹارنی جنرل نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ دیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1962 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا ۔ یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کے لیے ہے ۔قانون کے ذریعے سارے اختیارات اس عدالت کے اندر ہی رکھے گئے ہیں ۔یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلقہ ہے۔