اسلام آباد: جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں۔ 17 غیر منتخب ججز پارلیمنٹ کے اختیار کو کیسے ختم کرسکتے ہیں۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی لائیو سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 15 رکنی بینچ سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کہتی ہے سپریم کورٹ اپنا نظام ٹھیک کرے۔پارلیمنٹ کو قانون سازی سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟17غیر منتخب ججز عوام کی نمائندہ پارلیمنٹ کے اختیار کو کیسے ختم کرسکتی ہے؟عدالتی نظام کو بہتر کرنے کا کہا جائے تو یہ عدالتی اختیار میں مداخلت کیسے بنتی ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا عوام پارلیمنٹ کے ذریعے ہمیں کہیں کہ وہ کیس 14 دن میں مقرر کریں تو کیا وہ غلط ہو گا؟ آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر کے لیے ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس کے اختیار کو چھیڑنے سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں ۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے درخواست گزار وکیل سے استفسار کیا کہ کہ اس قانون سازی سے کون سے بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں؟ یہ تو چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کی قانون سازی ہے۔