اسلام آباد : سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کی لائیو سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 15 رکنی فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے درخواست گزار کے وکیل خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا آپ کو قبول ہے ایک بندہ بینچ بنائے؟پارلیمنٹ نے اسی ایشو کو ایڈریس کیا ہے؟ آپ کے مؤکل کی ذاتی دلچسپی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست دائر کی؟
وکیل خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میرے مؤکل نے عوامی مفاد میں درخواست دائرکی ۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ لگتا ہے آپ پرانے نظام سے ہی مطمئن ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ میں چیف جسٹس ہوں کیا میں کوئی کیس سال تک فکس نہ کروں؟ کیا سپریم کورٹ میں صرف میری مرضی چلنی چاہیے؟ اس طرح تو کوئی بھی چیف جسٹس جو چاہے کرتارہے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا اپ اس پر مطمئن ہیں کہ بنچ کی تشکیل کا اکیلا اختیار چیف جسٹس کا ہو ؟آپ اس پر مطمئن نہیں کہ چیف جسٹس دو سینئر ججز کی مشاورت سے فیصلہ کریں ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب میں آپ کی زندگی آسان بنانا چاہتا ہوں آپ نہیں چاہتے۔ کہا ہے آپ صرف سوال نوٹ کریں۔جسٹس مسرت ہلالی کا کہنا تھا کہ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بے اختیار سا نہیں کردیا گیا ؟
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا صرف قانون بنانے سے سپریم کورٹ کا اختیار متاثر ہوا یا چیف جسٹس کا؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا آپ مطمئن ہیں کہ چیف جسٹس اکیلے ہی روسٹرم کے ماسٹر ہوں ۔جسٹس منیب اختر نے پوچھا کہ خواجہ صاحب کیا اس طرح کے اختیارات پر سادہ قانون کی بجائے ائینی ترامیم نہیں ہونی چائیے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ خواجہ صاحب ایک سادہ سا سوال میرا بھی ہے۔ یہی پریکٹس اینڈ پروسیجر بنالیں تو ٹھیک ہے ۔آپ یہ کہہ رہے کہ یہی کام پارلیمنٹ کرے تو وہ غلط ہے۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ سیکشن 5 کو آئینی سمجھتے ہیں یا غیر آئینی؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ میں سوال آسان بنا دیتا ہو۔آپ اپنے موکل کے لیے اپیل کا حق چاہتے ہیں یا نہیں؟
خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ ایک اچھی چیز اگر غیر آئینی طریقے سے دی گئی تو وہ غلط ہے۔ سیکشن فائیو غیر آئینی ہے ۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ قانون عوامی مفاد کے لیے بنایا گیا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا عدلیہ کی بیرونی عناصر سے آزادی اہم ہے تو اندرونی آزادی بھی اہم ہے۔ پارلمینٹ نے اس قانون سے اندرونی آزادی کو فوکس کیا ہے ۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا عدلیہ کی اندرونی آزدای کا معاملہ پارلیمنٹ کے ہاتھ میں دیا جا سکتا ہے ۔ جسٹس اطہر من اللہ کے لیے احترام ہے مگر کیا یہ کوئی حل ہے؟ ۔
خواجہ طارق رحیم کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے اندرونی معاملات میں کسی اور کی مداخلت ہو گی تو یہ سپریم کورٹ نہیں رہے گی ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم یہاں آپس میں بحث کرنے نہیں بیٹھے کئی قوانین مجھے بھی پسند نہیں مگر میں نے حلف اُٹھایا ہے۔حلف کے مطابق میں آئین اور قانون کے مطابق کام کروں گا ہم نے اس کیس میں سوموٹو نوٹس نہیں لیا ۔ہم پر اتنا بڑا حملہ ہوتا تو ہم کہیں معاملات پر سوموٹو لے چُکے ہوتے ۔ آپ بار بار ذاتی رائے دیتے ہیں اس کی کوئی اہمیت نہیں۔