کیا تکبر کرنا ممکن ہے؟ کتنا عجیب سوال ہے! مگر بات سمجھنے سمجھانے کے لیے اہم بھی بہت ہے۔ انجام کے اعتبار سے خوفناک بہت ہے۔ ذرہ برابر تکبر بھی ہوگا تو جنت میں داخل نہ ہوسکے گا۔ ابلیس کا لعین ومردود ہونا اسی بنا پر تو تھا۔ اس نے گھمنڈ میں آدم علیہ السلام کو حقیر جانا اور رب تعالیٰ کی بندگی سے منہ موڑا۔ (’مسلم‘ کی حدیث میں ’تکبر‘ کی تعریف)۔
توجہ سے دیکھا جائے تو تکبر کرنابڑا مشکل کام ہے۔ خود انسان کے وجود میں قدم قدم تکبر کی راہ میں اتنی رکاوٹیں ہیں کہ ہر قدم پر لال سگنل آن کھڑا ہوتا ہے۔ گھر ہی کا ایک کونہ ایسا ہے جو بنا ہی تکبر توڑنے کو ہے۔ جو انسان کی بے بسی کی علامت ہے۔ نارمل انسان دن میں کئی مرتبہ اس کی یاترا کرتا ہے۔ حقیر ہوا داخل ہوتا ہے اور شکر کی ٹھنڈی سانس بھر کر نکلتا ہے۔ (مومن کی دعاؤں کا تذکرہ ایک مکمل باب ہے جو فکر ونظر کو درست رکھنے کا سامان ہے۔ ہم تو ہر مومن وکافر کے شب وروز کی بات کر رہے ہیں۔) انسانی جسم کو لاحق مجبوریاں دن بھر اسے اس کی اوقات یاد دلاتی ہیں۔ کھانا پینا ضروریاتِ زندگی ہیں تو کھائے گئے کے بقایاجات سے نجات پانا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ نجات نہ ملے تو بیماری، بے قراری اور پھر ادویہ وہسپتال! جو بقایاجات ہیں وہ متعفن وبدبودار ہیں۔ بیت الخلاء میں بدبو سے چھٹکارا پانے کو اضافی پنکھا گندی ہوا باہر نکالنے کو لگایا جاتا ہے۔ اندر جانے والا بادشاہ، وزیراعظم، گورنر ہو یا غریب مسکین عامی، طریق کار یکساں ہے شاہی ہو یا فقیری ہو! نتیجہ یکساں ہے۔ اب بتائیے دن میں کم وبیش چار چھ چکر لگانے میں تکبر کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ حیران کن بات تو یہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے فراعنہ، نمارود، ہیرو، رئیس۔ ان میں سے کوئی بھی خدام یا ملازمین کی فوج بھی رکھتا ہو تو تاریخ اس بارے دم سادھے ہوئے ہے کہ کیا بادشاہ سلامت کا کوئی مددگار اس کی صفائی ستھرائی کا فریضہ انجام دینے کبھی ہمراہ گیا؟ نہیں! ان سند یافتہ (Certified) متکبرین کو عمدہ خوراکوں، مشروبات کا نتیجہ خود اپنے ہی ہاتھوں بھگتنا تھا! اب بتائیے تکبر تو بدبودار ہواؤں میں اڑ گیا یا نہیں؟ کیا گنجائش ہے اکڑنے یا خود کو کچھ سمجھنے کی! ہمچو ما دیگرے نیست! ہم سا ہو تو سامنے آئے! من اشد منا قوۃ…… پلٹ کر اور کچھ دیکھنا چاہیں تو اکیسویں صدی کے بے مثل قوت، ضرب وحرب کی ریکارڈ شکن سپر پاوروں کا اکٹھ اور پھر ان کے بندھے رسوا کن پیمپرز! جو تکبر کی گندگی سے لتھڑے اسی طرح تابوتوں میں بے یار ومددگار لوٹنے پر مجبور ہوئے! یہ متکبر چرچل تھا جس کی سونے کی فلش کی سیٹ میوزیم میں رکھی ہے۔ ہندوستان کا سونا لوٹ کر اس کرسی پر چڑھارکھا تھا۔ بیٹھتا تھا تو زر وجواہر تو نہ جھڑتے تھے مٹی سے بنے بے وقعت وجود سے! ملکہ برطانیہ، تاج میں ہندوستان سے چرایا کوہِ نور ہیرا چھوڑ تابوت نشین ہوئی اور فوراً ہی ’ہیرا واپس دو‘ کا شور اٹھ گیا! یہ تو بدترین مثالیں دے کر آپ کے ذوق نفیس کو اذیت پہنچائی۔ اب ذرا سادہ تر معاملے میں بھی انسانی وجود کی بے بسی دیکھ لیجیے۔ شاندار حلیے، شخصیت تہذیب سے سجا سنورا انسان مجلس میں مہذب گفتگو کر رہا ہے۔ یکایک، اچانک، ناگہانی ایک جناتی چھینک بلانوٹس، بلااجازت دھماکہ خیز ورود فرماتی ہے۔ ایسے میں اگر رومال، ٹشو بھی ہمراہ نہ ہو اور چھینک کی چھنکار سامنے، قریب بیٹھے ہوؤں کو اپنی زد میں لے لے۔ ساری عزت دھری کی دھری رہ جائے گی۔ الحمدللہ کے بعد معذرتوں اور خود کو سنبھالنے روکنے کا مرحلہ درپیش ہوگا۔ بھلے آپ وزیر خزانہ ہوں یا وزیر خارجہ یا وزیراعظم، خزانے اور عظمتوں کا مان تو خارج ہوتی چھینک نے ختم کر ڈالا۔ اوقات یاد دلا دی۔ یا پھر بھری مجلس میں پیٹ سے گڑگڑانے کی آواز آنے لگے تو سائلنسر کون لگائے؟ مسلمان ہو تو اللہ ہی سے اللھم استرعورٰتنا، کی فریاد کرے گا! یہی حال مشروبات پینے کے نتیجے میں اچانک امڈ پڑنے والے ڈکار پر بھی ممکن ہے۔ یہ سبھی وہ روزمرہ کے اسباب واحوال ہیں جو انسان کو آپے سے باہر ہونے، خود کو کچھ سمجھ بیٹھنے کے آگے مضبوط بند باندھنے کو کافی ہیں۔ تکبر کرنا اتنا آسان بھی نہیں۔ تاہم خوفناک ہونے کی بنا پر ہر لمحہ اللہ کی مدد اور شیطان مردود سے پناہ مانگنی لازم ہے۔
اگر آپ کی شناخت دینی ہے تو پھر تو میرے رب نے ہر آن تکبر سے تحفظ دینے کا بھرپور سامان کر رکھا ہے۔
معمولات میں نماز پنجگانہ، تلاوتِ قرآن، مسلسل اذکار ہر قدم سے منسلک ہیں۔ اگر آپ کتابیں بھی پڑھتے ہیں باذن اللہ تو حفاظت کے مزید کئی سامان میسر ہیں۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر، سوا لاکھ کے قریب صحابہ کرام رضوان اللہ، شہداء اتنے کہ افق تا افق آسمان تمتما اٹھتا ہے ان کے خون کی لالی سے ہر ڈھلتی شام! صالحین کا تقدس اتنا کہ نیلگوں آسمان پر چھائے سفید براق بادل ان کی سیرت کی پاکی کا عکس ہیں۔ ان سب کو پڑھتے ہوئے آپ مارے عجز کے دوہرے ہوئے جاتے ہیں کہ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا!
اگر آپ نے دنیاوی عصری علوم پڑھ رکھے ہیں۔ سائنس سے شدبد ہے تو آئیے سورج سے نظر ملائیے! فوراً غضِ بصر کرنا پڑے گی۔ روشنی کی شدت نگاہ اٹھانے نہ دے گی۔ 50-52 درجے کا باہر کا درجہئ حرارت آپ کو بہت جلد سائے کی تلاش پر مجبور کر دے گا۔ یہ اتنا بڑا عظیم قدرتِ ربی کا شاہکار! اس کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے؟ کیا بس یہی ایک سورج ہے پوری کائنات میں؟ جب سے یہ دنیا بنی ہے تھکا نہیں رکا نہیں۔ اس کی بیٹری بدلنی نہیں پڑی۔ یہ زمین سے 10 لاکھ گنا بڑا ہے۔ اور اس سورج سے بڑے 3 عدد (مشکل ناموں والے) ستارے ہیں۔ ایک 50 لاکھ گنا بڑا ہے ہمارے سورج سے، دوسرا 30 کروڑ گنا بڑا ہے اور تیسرا ایک ارب گنا بڑا ہے۔ ہماری کہکشاں (Milky Way)میں اس سورج جیسے 300 ارب سے زائد سورج ہیں۔ پڑوسی کہکشائیں ہماری کہکشاں سے ایک 60 گنا، اور اس سے اگلی 600 گنا بڑی ہے۔ اسی حساب سے ان کے سورج بھی مزید اربوں میں ہیں! (ہمارے مقابلے مرلے دس مرلے سے چلتے کنالوں ایکڑوں پر بنے گھروں کے ہوتے ہیں اور بالآخر دو گز کی قبر میں جا سوتے ہیں!) اب اس کائنات میں اپنے اس بے حد وحساب قوت طاقت، روشنی حدت بھرے سورج کا مقام دیکھیے۔ طاقتور ٹیلی سکوپ بتاتی ہے کہ آسمان پر نظر آتے ستاروں کی تعداد کھربوں میں ہے۔ اور یہ 100 ارب کہکشاؤں میں جھرمٹوں میں (Clustered) ہیں۔ اس میں ہمارا سورج دنیا بھر کے ساحلوں میں موجود ریت کے ایک ذرے کے برابر ہے! بیسویں صدی سے پہلے سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ ہماری اپنی یہ کہکشاں ہی پوری کائنات ہے! عظیم کائنات میں عظیم سورج کے مقام (ریت کے ذرے برابر) کے تناظر میں دیکھیے تو میں / میری جماعت/ میرا خاندان/ برادری…… قبیلہ اس کی بڑائی کے جھنڈے گاڑتا مٹی کا یہ مادھو، لیڈروں کو خدا بناتا، علم نہ ہو تو پھول کر کپا ہو جاتا ہے۔ علم، ایک سوئی چبھو کر ساری ہوا نکال کر چیتھڑا سا بنا دیتا ہے اس غبارے کا۔ سو تکبر کرنا آسان نہیں ہے۔ اللہ نے بے شمار حفاظتی بند باندھے ہیں اپنے بندے کو شیطانی حملوں سے بچانے کے۔ یقینا ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں۔ اللھم اجعلنی صبوراً واجعلنی شکوراً واجعل فی عینی صغیراً وفی اعین الناس کبیراً …… سروری زیبا فقط اس ذاتِ بے ہمتا کو ہے! ضمناً سائنسی خدائی کا زعم، گھمنڈ رکھنے والے متکبرین کا بھی حال دیکھیے۔ جو 2022ء کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 9 خلا بازوں کے واپس آنے کے ایک سال بعد بھی پنڈلی کی ہڈی کی کثافت پوری طرح بحال نہیں ہوسکی۔ عموماً زمین پر (دہائیوں میں ہڈی کو جو نقصان پہنچتا/ کمی واقع ہوتی ہے اس سے زیادہ نقصان ہڈی کو کششِ ثقل نہ ہونے کی بنا پر مریخ کے ماہ بماہ ہوتا ہے۔ جتنا زیادہ وقت خلا میں گزرا اتنی صحت یابی سست رفتار رہی۔ سو مریخ پر جاکر آباد ہونا آسان نہیں۔ خلا میں جانا چھوڑیں، بیت الخلاء تک کا چکر کافی ہے۔ اکتفا کریں! زمین نہ اجاڑیں مریخ جا بسنے کے شوق میں۔ اور یہ ہڈیوں ہی کا زیاں نہیں خون کے سرخ خلیات سے بھی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ نارمل طور پر ہمارا جسم ہر سیکنڈ میں 20 لاکھ خون کے سرخ خلیات کو تباہ کرکے ان کی نقول بناتا ہے۔ مگر خلاء میں خلابازوں کے 30 لاکھ خلیات فی سیکنڈ ختم ہوتے ہیں اور یوں خلا میں خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زمین پر لوٹ کر آنے والے 14 خلابازوں کے سرخ خون کے ذرات ایک سال بعد بھی پورے نہ ہو پائے۔ خلائی سیاحت کے ڈھنڈورے نہ ہی پیٹے جائیں تو بہتر! تمہاری اوقات طینی، زمینی ہے ٹک کر قرار سے یہیں بیٹھو۔ زمین کی قدر کرو!
ان مکانوں میں گلی کوچوں گزر گاہوں میں، یہ جو کچھ کیڑے مکوڑے سے نظر آتے ہیں، کہیں انسان تو نہیں! وہی انساں جو تکبر کے صنم خانے میں ناخدا اور خدا آپ ہی بن جاتا ہے، پاؤں اس طرح سرِ فرشِ زمیں رکھتا ہے، وہی خالق ہے ہر اک شے کا وہی داتا ہے، اس سے اب کون کہے! اے سرِ خاک فنا رینگنے والے کیڑے، یہ جو مستی ہے تجھے ہستی کی، اپنی دہشت سے بھری بستی کی، اس بلندی سے کبھی آن کے دیکھے تو کھلے، کیسی حالت ہے تری پستی کی! اور پھر اس کی طرف دیکھ کہ جو، ہے زمانوں کا جہانوں کا خدا، خالق ارض وسما حئی وصمد، جس کے دروازے پہ رہتے ہیں کھڑے مثل دربان ازل اور ابد، جس کی رفعت کا ٹھکانہ ہے نہ حد، اور پھر سوچ اگر، وہ کبھی دیکھے تجھے!! (ہوائی جہاز سے نیچے دیکھنے پر…… امجد اسلام امجد)