پاکستان میں کرپشن جیسی لعنت اتنی تیزی سے پھیل رہی ہے کہ اگر اسے روکنے کے لئے راست اقدامات نہ کیے گئے تو ہوسکتاہے کہ اس کے باعث پاکستان کی سا لمیت ہی داؤ پر لگ جائے،پاکستان میں کرپشن کو روکنے اور کرپٹ افراد کے خلاف اقدامات کرنے کے لئے جو ادارے یعنی نیب ،اینٹی کرپشن،ایف آئی اے وغیرہ بنائے گئے ہیں،یہ ادارے بجائے کرپشن میں کمی کے اضافے کا باعث بن رہے ہیں،ان اداروں کو حکومت نے سیاسی انتقام کاموثر ذریعہ بنالیاہے۔ان سے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کراکر انہیں لوٹے بنا کر اپنے ساتھ ملالیا جاتاہے یا انہیں کم از کم اپنی زبان بندی پر مجبور کیا جاتاہے،نیب کے ادارے نے تو اربوں روپوں کی کرپشن میں ملوث لوگوں سے کروڑوں کی کرپشن کرنے والوں سے لاکھوں اور لاکھوں کی کرپشن والوں سے ہزاروں روپے وصول کرکے انہیں ایسی سند عطا کردی جس کے باعث اب وہ پہلے سے بھی زیادہ دیدہ دلیری سے کرپشن میں ملوث ہوگئے،جب کہ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کے ادارے تو عرصہ دراز سے عضو معطل بن کر رہ گئے ہیں ان سے توعوام کو بھلائی کی کوئی امید ہے ہی نہیں،اگر ماضی کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو صاف پتہ چلتاہے کہ ان اداروں سے پہلے کرپشن ا تنی نہ تھی جتنی ان کے آنے کے بعد ہوگئی ہے،ان اداروں میں سیاسی عمل دخل،تقرریوں اور ترقیوں نے بھی ان کا بیٹرا غرق کرکے رکھ دیا ہے،گنے چنے اقدامات کے علاوہ ان کے کریڈٹ میں کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے۔پاکستان میں کسی بھی کرپٹ افسر کے خلاف اگر ستم رسیدہ اور متاثرین زیادہ شور شرابا یا شکایات ارباب اختیار اور افسران بالا کے سامنے کرتے ہیں توکیونکہ تقریباً افسران ان کے ساتھ ملے ہوئے ہوتے ہیں،یا وہ سیاسی عمل دخل کے باعث اپنے خلاف کارروائی کے ڈر سے خاموش ہوتے ہیں،انکوائری کمیٹی کا اعلان فرما کر تحقیقات کا اعلان کردیتے ہیں،آپ اگرکسی پولیس افسر یا اہلکار کے خلاف شکایت کریں تو اس کی انکوائری بھی پولیس کا ہی آدمی کرے گا جس کے باعث کرپٹ سے کرپٹ پولیس والے کے خلاف زیادہ سے زیادہ سزا یہ دی جاتی ہے کہ یا تو اسے ٹرانسفر کردیا جائے یا لائن حاضر۔یہی وجہ ہے کہ پولیس کے بارے میں عوام الناس کی بڑھتی ہوئی شکایات کے ساتھ ساتھ کرپشن میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور جرائم کی شرح بھی بتدریج خطرناک حد تک بڑھتی جارہی ہے،اکثر انکوائری کمیٹی کے افسران جوا نکوائری کے لئے تعینات کیے جاتے ہیں،وہ خود اس قابل ہوتے ہیں کہ ان کی انکوائری کی جائے،یہ حضرات جب کوئی انکوائری شروع کرتے ہیں تو پہلے تو اسی شخص کے گلے پڑ جاتے ہیں جس نے درخواست دی ہوئی ہوتی ہے یا واویلا کیا ہوتاہے۔الٹا اس سے سوال کرتے ہیں کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ فلاں شخص کرپٹ ہے،دوسری واردات میں اس سے اتنے الٹے سیدھے سوال کرتے ہیں،اور اسے اتنے چکر لگواتے ہیں کہ وہ شخص یا تو انکوائری واپس لے لے یا پھر اسے صلح پر مجبور کیا جاتاہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں کرپشن ایک مافیا کا روپ دھار چکی ہے،سٹیل ملز سیکنڈل،سٹاک ایکس چینج سیکنڈل،سیمنٹ،چینی،گندم،لنک روڈ سیکنڈل اس کے علاوہ دوسرے کئی سیکنڈلوں میں انکوائری کمیٹیاں بٹھائی گئیں،لیکن کمیٹیوں کے ارکان کیونکہ ایسے لوگوں کا نامزد کیاگیا جن کا کام کرپشن کو بے نقاب کرنے کے بجائے اسے تحفظ فراہم کرنا تھا،اس لئے عوام سے اربوں روپے ہتھیانے والے ان سیکنڈلوں کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا،اکثر لوگ تو اب یہ تک کہتے ہیں کہ حکومت جس کرپشن کو بے نقاب نہ کرنا
چاہئے اور جس کرپٹ افسر کو تحفظ فراہم کرنا چاہئے اس کے خلاف انکوائری بٹھا کر یا تواسے اتنا لمبا کردیا جاتاہے کہ لوگ بھول جائیں یا اپنا من پسند رزلٹ حاصل کرلیا جاتاہے،پاکستان میں اب تک مختلف جید علماء کرام کے علاوہ کئی اہم سیاسی شخصیات کو بے دردی سے قتل کیاگیا جس کی تفصیل بہت لمبی ہے،ان لوگوں کے قتل کے خلاف بھی انکوائری کمیٹیاں بٹھائی گئیں لیکن آج تک کسی کے قتل کا سراغ نہ مل سکا،انکوائری کمیٹیوں کی ناقص کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اب عوام کو بے وقوف بنانے کے اس سلسلے کو ختم کردینا چاہئے تاکہ انکوائری افسر اور اراکین کی ناز برداری اور نخرے اٹھانے سے تو بہتر ہے کہ معاملے کو خدا پر چھوڑ دیا جائے کیونکہ جب کسی کرپٹ افسر کو انکوائری افسر یا کمیٹی کلیئر کردیتاہے تو وہ پھر وہ پہلے سے بھی زیادہ ظلم وستم،کرپشن اور انتقامی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کردیتاہے،جس کے باعث شکایت کنندہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ اس سے تو بہتر تھا چپ ہی رہا جاتاہے،جب تک یہاں چائنہ کی طرز کے اقدامات شروع نہیں ہوتے وہ رشوت خور،ملاوٹ اور دیگر جرائم کرنے والوں کو سکواڈ کے آگے کھڑا کرکے نشان عبرت بنادیتے ہیں،حالات سدھریں گے نہیں،ہمارے ملک میں تو الٹی گنگابہہ رہی ہے،ہمارا عدالتی نظام تو اس قابل ہے ہی نہیں کہ وہ بروقت انصاف پر مبنی فیصلے کرسکے لیکن اب حد ہوگئی ہے خاص کر موجودہ دور میں کرپشن کا ناسور نیچے سے لے کر اوپر تک سرکاری اداروں،سیاستدانوں،عدالتوں،تاجروں،پولیس،زمینداروں،کسانوں،کھیل کود کے میدانوں،ایوانوں وغیرہ میں اتنا زیادہ پھیل چکا ہے کہ اب انصاف کے متلاشی عوام میں مایوسی عام ہورہی ہے،مالی کرپشن کے علاوہ ملاوٹ کا ناسور جس کی اسلام میں قطعی گنجائش نہیں ہے ہم میں سرایت کر چکا ہے، ایک سروے کے مطابق پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں جعلی ادویات بنانے والی فیکٹریاں کام کررہی ہیں، اشیائے خورنی میں ملاوٹ،تعمیراتی کام میں سیمنٹ،سریہ،تارکول کا کم استعمال،جس کے باعث کھربوں روپوں کے ترقیاتی منصوبے اپنی تعمیر کی تکمیل سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونا شروع ہوجاتے ہیں،ہم سے تو ٹوٹے پھوٹے افغانستان پر حکومت کرنے والے وہ طالبان ودرویش ہی اچھے ہیں جن کے سابقہ اور موجودہ دور میں منشیات کی پیداوار ختم،چوروں اور ڈاکوؤں کو نشان عبرت بنادیا جاتاہے،بہرحال اگر ہم نے اپنا قبلہ درست نہ کیا تو طالبائزیشن اور افغانستان کے اسلامی قوانین واصولوں کے اثرات ہمارے ملک پر بھی پڑیں گے۔