سٹراسبرگ : یورپی پارلیمنٹ میں بحث کے لیے چار نکاتی مطالبات پیش کئے گئے ہیں جن میں کہاگیاہے کہ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں میڈیا اور کمیونیکیشن بلیک آوٹ کو ختم کرے اور بغیر وارنٹ گرفتار تمام افراد کو رہا کیا جائے۔
جموں و کشمیر کی علاقائی حکومت کو فعال اور خصوصی حیثیت کو پہلے کی طرح بحال کیا جائے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے کمشنر کو جموں و کشمیر میں جانے دے۔ مسئلہ کشمیر پر یورپین پارلیمنٹ کی بحث کو آگے بڑھانے والے ممبران پارلیمنٹ فل بینین ایم ای پی۔
کشمیری نژاد شفق محمد ایم ای پی اور ارینا و ن ویز ایم ای پی نے صورتحال پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کے سامنے 4 مطالبات رکھے ہیں۔ان مطالبات میں یورپین یونین سے کہا گیا ہے کہ وہ بھارت پر دباو ڈالے کہ بھارت اپنے زیر انتظام کشمیر میں میڈیا اور کمیونیکیشن بلیک آوٹ کو ختم کرے اور بغیر وارنٹ گرفتار تمام افراد کو رہا کیا جائے۔
جموں و کشمیر کی علاقائی حکومت کو فعال اور خصوصی حیثیت کو پہلے کی طرح بحال کیا جائے۔ بھارت مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے کمشنر کو جموں و کشمیر میں جانے دے۔
بھارت اور پاکستان کی حکومتیں یورپی یونین یا اقوام متحدہ جیسے آزاد اداروں کی مدد سے باہمی تعاون کے طریقے تلاش کرنے کے لیے تبادلہ خیال کریں۔ان ممبران نے اپنے ان مطالبات کے حق میں دلیل دیتے ہوئے اتھارٹیز اور پارلیمنٹ کو آگاہ کیا کہ "مقبوضہ کشمیر میں صورتحال انتہائی خراب ہے۔ یہ اقوام متحدہ کا تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہے جو کہ بھارت، پاکستان اور چین میں تقسیم ہے۔
یہ دنیا کا سب سے زیادہ فوجوں کی موجودگی والا علاقہ ہے جہاں گذشتہ صدی میں تین بڑی جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔اگست میں بھارت میں مودی حکومت نے یکطرفہ طور پر اپنے آئین کے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرکے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی ہے۔ وہاں کی حکومت کو معطل اور ان کے راہنماﺅں کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا ہے" ۔
ان ممبران نے مزید کہا کہ جموں وکشمیر سے انسانی حقوق، جمہوریت اور قانون کی خلاف ورزیوں کی اطلاعات ہیں۔ مقامی لوگوں کیلئے مواصلات کے ذرائع۔ انٹرنیٹ، لینڈ لائن، موبائل فون اور سوشل میڈیا کو منقطع کر دیا گیا ہے۔ کرفیو لگا ہوا ہے اور منتخب نمائندے گرفتار کر لئے گئے ہیں۔