تاریخ گواہ ہے کہ اپنی پسند سے آرمی چیف لگانے والے وزرائے اعظم میں سے کوئی ایک بھی فیض حاصل نہیں کر پایا۔ جن کا خیال تھا کہ باقی مدت گلے مل کر گزار لیں گے بعد میں گلہ کرتے پائے گئے کہ ہمارا اپنا فیصلہ ہمارے ہی گلے پڑ گیا ہے۔ یہ سچ ہے کہ آرمی چیف کوئی بھی ہو وہ سب سے پہلے اپنے ادارے کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور اس عمل کی راہ میں آنے والی کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اس کے باوجود وزیر اعظم کو کم از کم یہ اختیار تو ہوتا ہے کہ وہ سینئر جرنیلوں کی فہرست سے کوئی ایک نام منتخب کر سکے۔ وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان کی بھی سب سے بڑی خواہش یہی تھی کہ ان کو بھی اپنے قلم سے آرمی چیف کے تقرر کا موقع ملے۔ ویسے تو انہوں نے بلکہ ایک پیج نے اس حوالے سے ایک نام بھی طے کر رکھا تھا اور اس حوالے سے اندھا دھند اعتماد کا اظہار بہت پہلے ہی کرنا شروع کر دیا تھا۔ جن دنوں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی پہلی ٹرم مکمل ہونے کے نزدیک تھی اور ان کو توسیع دئیے جانے کے متعلق متضاد اطلاعات آ رہی تھیں۔ اس وقت پی ٹی آئی حکومت کے ایک اہم مشیر نے صحافیوں کے ایک مختصر گروپ کو بتایا کہ جنرل قمر جاوید باجوہ فل ٹرم کی توسیع لیں گے۔ مشیر نے دعویٰ کیا کہ پھر تین سال مکمل ہونے کے بعد فلاں افسر کو آرمی چیف بنایا جائے گا۔ وہ افسر بھی اپنی مدت ملازمت مکمل کر کے مزید تین سال کی توسیع لیں گے یعنی یہی حکومتی بندوبست اگلے دس سال تک اسی ”شان و شوکت“ کے ساتھ چلتا رہے گا مگر حالات بدلتے دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ آج عمران خان اپنے ہاتھوں سے آرمی چیف لگانے کے اعزاز اور اقتدار سے محرومی کے بعد افسوس سے ہاتھ مل رہے تو محسوس ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف بھی خالی ہاتھ ہیں۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ اتنا گمبھیر بنا دیا گیا کہ ملک پر پہلے سے چھائی غیر یقینی صورتحال کے بادل مزید گہرے ہو گئے ہیں۔ رواں برس نو اپریل کو پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاک فوج کی قیادت کے خلاف جس طرح سے مہم چلائی گئی اس سے کئی بار یوں محسوس ہوا کہ کہیں ریاست ہی نہ ڈول جائے۔ پھر کچھ کچھ اندازہ ہوا ہے معاملات کنٹرول سے باہر نہیں بلکہ اپنے ہی تیار کردہ عفریت سے جان چھڑانے یا اسے کوئی دوسرا روپ دینے کے لیے ایسی حکمت عملی کو ضروری خیال کرتے ہوئے غیر معمولی برداشت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے کوئی حکومت بھی نہیں چاہتی کہ اس کے دور میں کسی قسم کا عدم استحکام پیدا ہو۔ ہمارے ہاں پہلے ہی سے کئی بحران چل رہے تھے۔ ایسے میں جب موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت ختم ہونے کا وقت قریب آنے لگا تو خیال کیا جا رہا تھا کہ حکومت زیادہ انتظار کیے بغیر ہی نئے سپہ سالار کے نام کا اعلان کر دے گی۔ اطلاعات بھی ایسی ہی تھیں۔ حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں نے اس حوالے سے مشاورت شروع کر رکھی تھی۔ پھر یوں محسوس ہونے لگا کہ کسی نے حکومت کو اس حوالے کوئی فیصلہ کرنے سے روک دیا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے حالیہ دورہ لندن کے دوران اور اسکے بعد سے اس حوالے جو خبریں آ رہی ہیں ان کو ہڑبونگ کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔
یہ افراتفری اور کنفیوژن صرف حکومتی صفوں تک ہی محدود نہیں بلکہ آدھے سے زیادہ ملک پر حکومت کرنے والی پی ٹی آئی بھی شدید بے چینی کا شکار ہے۔ نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل کو متنازع بنانے کا عمل عمران خان نے ہی شروع کیا۔ کبھی کہتے ہیں کہ ”چوروں کی حکومت“ کو آرمی چیف نہیں لگانے دیں گے، کبھی کہا جاتا ہے کہ ہمارا کوئی تعلق نہیں حکومت جسے چاہے آرمی چیف لگا دے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے پہلے پانچ سینئر جرنیلوں کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی تھی جب یہ دیکھا کہ وہاں کوئی اثر نہیں ہونے والا تو پھر ایک نام کے گرد دائرہ لگا دیا۔ لیکن یہ بھی طے ہے کہ پی ٹی آئی جس نام کی مخالفت کر رہی ہے اگر قرعہ فال اسی کے نام نکل آیا تو ہاتھ باندھ کر سامنے کھڑے ہونے میں دیر نہیں لگائی جائے گی۔ بہر حال اس وقت تک تو عمران خان شدید خدشات میں مبتلا ہیں۔ یہ کہنا کہ نیا آرمی چیف، نواز شریف کے کہنے پر مجھے نااہل کرا دے گا اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ راولپنڈی کی جانب رواں دواں لانگ مارچ کے انجام سے وہ خود بھی بے خبر ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے اس لانگ مارچ کو بھی نئی تعیناتی کے کھیل میں استعمال کر لیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی جانب سے مسلسل دی جانے والی غیر معمولی رعائتیں بھی عمران خان پر طاری مایوسی اور جھنجھلاہٹ کو کم نہیں کر سکیں۔ دوسری جانب حکومت کو بھی علم نہیں کہ نئے آرمی چیف کے انتخاب کا معاملہ کس طرف جائے گا۔ مقتدر حلقوں کی اپنی رائے سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرتی نظر آ رہی ہے اور اس حوالے سے فیصلہ کن بھی ہو گی۔ اسی دوران حکومت کے لیے سبکی کا ایک اور سامان پیدا ہو گیا ہے وہ اپنے ہی فیصلوں پر عمل درآمد کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ وفاقی کابینہ کا ہنگامی اجلاس طلب کرنے کے فوری بعد ملتوی کر دیا گیا۔ دوسری جانب ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں عسکری قیادت میں تبدیلی کا وقت قریب آتے ہی، حکومت، پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 میں اہم ترمیم کرنے پر غور و خوض کرتی نظر آ رہی ہے جس سے آرمی چیف کے عہدے کے لیے کسی بھی امیدوار کی ملازمت برقرار رکھنے کا اختیار ایک سادہ نوٹیفکیشن کے ذریعے وزیر اعظم کو حاصل ہو جائے گا اور اس سلسلے میں پیچیدہ آئینی کارروائی سے گزرنا نہیں پڑے گا۔ بتایا گیا ہے سمری کابینہ کی قانون سازی کے معاملات سے متعلق کمیٹی (سی سی ایل سی) کے سامنے پیش کیے جانے کے لیے تیار ہے جس کی وزارت دفاع نے گزشتہ ماہ منظوری دی تھی، بعد ازاں، مسودے کو مجوزہ قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ موجودہ سیاسی ماحول میں سامنے آنے والی اس پیش رفت کو اہم سمجھا جا رہا ہے جو کہ فوج میں متوقع کمان کی تبدیلی کی موجودہ صورتحال کو تبدیل کر سکتی ہے۔ اس ترمیم کے ذریعے وزیر اعظم کو یہ اختیار حاصل ہو جائے گا کہ وہ آرمی چیف یا کسی بھی سینئر افسر کو جو کہ جلد ریٹائر ہونے والا ہے، اسے آئندہ احکامات تک اپنے فرائض جاری رکھنے کا حکم دے سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ لیفٹیننٹ جنرل عاصم منیر، جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے سے چند روز قبل ریٹائر ہونے والے ہیں جبکہ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اگلے آرمی چیف بننے کی دوڑ میں شامل ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ کوئی نئی سمری نہیں۔ اس حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں قانون کو مزید بہتر بنایا جا رہا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ نئی تقرری کے لیے پرانے آرمی چیف کی رائے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ سیاسی حکومت اپنی مرضی کا آرمی چیف لے بھی آئے تو اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں سے ہٹ کر نہیں چل سکتی۔ مسلم لیگ ن بلکہ اتحادی جماعتوں کی حکومت سپریم کورٹ میں جونیئر ججوں کی تقرریوں کے عمل کا حصہ بن کر پہلے ہی اپنی کمزوری اور بے بسی آشکار کر چکی ہے۔ آنے والے دونوں میں حکومت کسی کی بھی ہو اختیارات کا مرکز کہیں اور ہو گا۔ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم ہائبرڈ نظام سے نکل کر سپر ہائبرڈ دور میں داخل ہو رہے ہیں۔