امسال محبوبِ الٰہی حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ کے عرس کے موقع پر حاضری کی سعادت نصیب ہوئی۔ اس سفر کی روحانی روداد تو عمر بھر فکری سفر کے ساتھ ساتھ چلے گی، فی الوقت یہاں سفر کے کچھ احوال و واقعات قلم بند رہا ہوں۔
عالمِ اَمر میں طلب کیا جاتا ہے اور عالمِ اسباب میں اسباب نتائج کا پیش خیمہ بن کر مرتب ہونے لگتے ہیں۔ بھلا ہو اس نوجوان عثمان مختار کا، اس کا ذوق و شوق اس مبارک سفر کا محرک ثابت ہوا۔ چند ماہ قبل ایک شب اچانک آن وارد ہوا، کہنے لگا ”سر جی! اپنا پاسپورٹ دیں، کل آخری تاریخ ہے، زائرین کا وفد نظام پاک جا رہا ہے“۔ سچ پوچھیں تو میں نے اس کا دل رکھنے کے لیے اسے پاسپورٹ دے دیا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے اس فقیر کا جانا محال نہیں تو دشوار ضرور ہے، لیکن واقعات یکدم ترتیب میں آتے چلے گئے، اور جہانِ اسباب میں سب اسباب یوں منتج ہوئے کہ گزشتہ پیر 7 نومبر 2022 کو علی الصبح حاجی کیمپ سے روانہ ہونے کا عندیہ مل گیا۔ بعد از نمازِ فجر مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ کے مزارِ اقدس پر حاضری دی، ازاں بعد سیّدِ ہجویر حضرت علی ہجویریؒ کے دربارِ عالیہ پر حاضر ہوئے اور وہاں سے حاجی کیمپ کے لیے روانہ ہو گئے۔ برادرم محمد یوسف واصفی اور ذیشان دانش بھی مسافرانِ منزل میں شامل تھے۔ دفتری کارروائی سے لے کر سامان کی پیکنگ تک مذکورہ نوجوان پیش پیش تھا۔ چار لوگوں کے اس مختصر سے قافلے نے چپکے سے اسے ہی اپنا پیش رو مقرر کر لیا کہ یہ چند برس قبل بھی انڈیا جا چکا ہے اور زمینی سفر کے نشیب و فراز خوب جانتا ہے۔ وزارتِ مذہبی امور کا یہ وفد تقریباً ڈیڑھ سو افراد پر مشتمل تھا۔ سب زائر نہیں تھے، کچھ سیاح بھی تھے۔ زیارت اور سیاحت میں فرق ہوتا ہے۔ کاروبارِ گلشن اور چیز ہے اور گلشنِ کاروبار اور چیز! کاروبارِ ذوق اور ذوقِ کاروبار میں فرق ہوتا ہے۔ فقیری ایک مزاج ہے، جس کے مزاج میں فقیری نہ ہو، وہ فقیری کے نام پر بھی امیروں سے راہ و رسم رکھتا ہے۔
واہگہ بارڈر پر چار گھنٹے کی امیگریشن کے کٹھن مرحلے سے گزر کر، وہ لکیر کراس کی جسے کھینچنے کے لیے ہمارے آباؤ اجداد نے لاکھوں جانوں کی قربانی دی۔ یہ لکیر بہت قیمتی ہے.... یہ ہمارے پُرکھوں کے خون سے کھنچی ہوئی ہے۔ یہ سرحد بہت مقدس ہے.... اس میں ہمارے لاتعداد شہیدوں کا لہو شامل ہے۔ اس سرحد کی اہمیت اسے پار کرتے ہی محسوس ہونے لگتی ہے۔ ہم اپنا پاسپورٹ پکڑ کر پیدل چلتے ہوئے یہ لکیر جسے اہلِ ہند مٹانے کے درپے ہیں، کراس کرتے ہیں۔ سرحد کی دوسری جانب پاکستانی پرچم دیکھیں تو اس کی سربلندی کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے، اس طرف سے دیکھیں تو پاکستان گیٹ پر ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ“ لکھا ہوا نظر آتا ہے اور ان دونوں عبارتوں کے درمیان میں قائدِ اعظمؒ کی ایک پُرکشش تصویر ہے۔ یہ تصویر دیکھتے ہی عقیدت و احترام سے نگاہیں جھک جاتی ہیں۔ ابھی اس لکیر کی دوسری جانب دس پندرہ فٹ کے فاصلے پر اپنا سامان لے کر بیٹھے تھے کہ پاکستان کی جانب سے ظہر کی اذان بلند ہوئی۔ ایک زائر نے پاکستان کی جانب، یعنی جانبِ حرم اپنا مصلیٰ بچھایا اور نماز کے لیے کھڑا ہو گیا۔ اچانک ان کے بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک کارندہ دھاڑنے لگا ”یہ پبلک پلیس ہے، یہاں نماز نہیں پڑھ سکتے“ پاکستان گیٹ پر لکھے ہوئے جملے کی اہمیت دل میں اجاگر ہو گئی۔ قائدِ اعظمؒ کی تصویر بھی گویا ہماری طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ قائد اعظمؒ کا احسان پاکستان یکایک ایک اعلیٰ، مقدم اور مقدس وطن محسوس ہونے لگا۔ کچھ دیر بعد ایک اور زائر بھی اپنا مصلیٰ بچھا کر نماز کے لیے کھڑا ہو گیا، رش میں اسے معلوم نہ ہوا تھا کہ پہلے کسی ساتھی کو نماز سے منع کیا گیا ہے۔ وہی تیکھی موچھوں والا سنتری جے پال پھر ڈانٹنے کے لیے آن وارد ہوا ”پہلے بھی بتایا ہے، پبلک پلیس پر نماز پڑھنا منع ہے“ در آں حالے کہ وہ پبلک جگہ بالکل نہ تھی، دور دور تک پبلک کا نام و نشان نہ تھا، صرف زائرین تھے اور ان کی بارڈر سکیورٹی فورس کے آدمی تھے۔ کچھ دیر بعد وہ ٹہلتے ہوئے بڑبڑایا ”ابے! سمجھ نہیں آتی، نماز نہیں پڑھو گے تو مر جاؤ گے کیا؟“ اس میں اس سنتری کا کچھ دوش نہ تھا، دراصل اس کی زبان سے ہندوستانی حکومت کی پالیسی بول رہی تھی۔ یوسف واصفی کہنے لگے ”قائدِ اعظمؒ کی نگاہیں کتنی دور رس تھیں، انہوں نے اُس دور میں الگ وطن کا مطالبہ کیا جب ہند میں سجدے کی اجازت تھی۔ اقبالؒ کی بلند نگاہی اس پر سوا تھی، انہوں نے بتلا دیا تھا:
ملا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
نادان سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد
دلی میں جتنے دن قیام رہا، رکشہ ڈرائیور سے لے کر ایک خوانچہ فروش تک ہر ایک کی زبان پر یہی رٹا رٹایا جملہ تھا ”ارے میاں! ہم سب ایک ہی ہیں، ہمارا پہناوا، کھانا پینا سب ایک ہے، یہ تو درمیان میں بس ایسے ہی لکیر کھینچ دی گئی ہے، ہمیں تقسیم کرنے کے لیے“ قول و فعل میں اس قدر تضاد! اللہ اللہ!! حکومت ہند نے اسی لکیر کا دفاع کرنے کےلئے بارڈر سکیورٹی فورس کے نام پر کئی لاکھ سنتری بندوقوں کے ساتھ کھڑے کر رکھے ہیں۔ اگر انہیں سرحد اتنی گراں گزرتی ہے وہ تو اسے نرم کرتے، پاکستانی زائرین کو سہولت دیتے، ان سے پیار محبت اور شائستگی سے پیش آتے۔
وہاں سے آنے والے یاتریوں کے لیے ہماری ہر حکومت چشم براہ رہتی ہے، انہیں کھانا تک کھلاتی ہے، سارا شہر گھماتی ہے، لیکن دوسری طرف پاکستان زائرین کے ساتھ انڈین گورنمنٹ کے اہلکاروں کا رویہ اس قدر ترش ہے کہ زائرین کو احساس ہوتا کہ اگر سفر کا محرک روحانی عقیدت نہ ہو تو وہ کبھی اس طرف کا رخ نہ کریں۔ واہگہ بارڈر سے امرتسر ریلوے سٹیشن تک پہنچانے کے لیے جو بسیں فراہم کی گئیں، وہ ہمارے مضافات میں چلنے والے ”گجر طیارہ“ ٹائپ بسیں تھیں۔ ان بسوں میں قدم رکھتے ہی اپنا چالیس برس قبل زمانہ طالب علمی یاد آ گیا، جب ایسی بسوں میں ٹھنس ٹھنسا کر گھر سے کالج اور کالج سے گھر کا سفر طے کیا کرتے۔ زائرین کی قیدیوں کی مانند گنتی کی جاتی ہے، بسوں میں سوار ہوتے ہوئے، بسوں سے اترتے ہوئے، ویٹنگ میں جاتے ہوئے اور پھر واپس آتے ہوئے، ٹرین میں سوار ہوتے ہوئے اور پھر ٹرین سے اترتے ہوئے۔ یہ سب حرکتیں زائرین کو زچ کرنے کے لیے کی جاتی ہیں۔
زائرین کو ایسی جگہ ٹھہرایا گیا جو درگاہ نظام الدینؒ سے کوسوں دور تھی، تقریباً چودہ پندرہ کلومیٹر دور۔ پہاڑ گنج کا گنجان آباد علاقہ تھا۔ کہنے کو تھری سٹار ہوٹل تھا لیکن حال حلیے سے دو اڑھائی سٹار سے بھی کم تھا۔ لابی میں چار پانچ سکیورٹی اہلکار سول کپڑوں میں بیٹھ گئے، حکم جاری ہوا کہ رات نو بجے سے پہلے سب لوگ ہوٹل کے کمرے میں موجود پائے جائیں۔ ہوٹل سے نکلتے ہوئے لکھوا کر جائیں، کہاں تک جا رہے ہیں اور کب تک واپس آئیں گے، دو دو لوگ نہ جائیں، بلکہ دس بارہ کا گروپ باہر جائے۔ ایک سیانا اہلکار کہنے لگا، ہم نے ہر ایک کے ساتھ چار چار بندے بھیجنا ہوتے ہیں، آپ لوگ اگر دو دو کر کے باہر جائیں گے تو اتنے یاتریوں کے لیے اتنے سارے لوگ ہم کہاں سے لائیں گے“ ایسے جاسوسوں کو دیکھ کر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا، میڈیکل کالج کے زمانے میں ڈاکٹر عامر سلیمان نے مجھے سنایا تھا، ابھی تک مجھے یاد ہے۔ کہتے ہیں، جنگِ عظیم اول کا زمانہ تھا، ایک جرمن جاسوس کو انگلینڈ بھیجا گیا، اس نے ایک جارج نامی جاسوس سے رابطہ کرنا تھا، اسے نشانی یہ بتائی گئی کہ وہ فلاں گاؤں میں رہتا ہے اور وہ تمہیں اس طرح پہچان لے گا کہ تم اپنے کان کی طرف ہاتھ لے جاتے ہوئے اسے کہو گے ”آج موسم بہت اچھا ہے، اور وہ جواب میں کہے گا، ہاں! آج واقعی موسم بہت اچھا ہے“ قصہ مختصر، یہ جاسوس صاحب اس قصبے میں گئے تو راستے میں ایک کسان نظر آیا، اس نے کہا ”یہاں جارج نام کا ایک شخص رہتا ہے، اسے ملنا ہے“ کسان نے پوچھا ”بھئی کون سا جارج؟ ایک جارج کمہار ہے، ایک جارج لوہار ہے، ایک جارج دکاندار ہے، اور میرا نام بھی جارج ہے۔ تمہیں کس سے ملنا ہے؟ وہ سوچنے لگا، ہو سکتا یہی اس کا مطلوبہ جارج ہو۔ اس نے کان کی طرف ہاتھ لے جاتے ہوئے کہا ”آج موسم بہت اچھا ہے“ وہ کسان سن کر کہنے لگا ”اچھا! تم نے جارج جاسوس سے ملناہے“۔