کلبھوشن یادیو کو اپیل کا حق دینے کیلئے حکومت پاکستان کو اپنے ہی قوانین میں ترامیم کرنا پڑی جس پر عوام یہ سوال اُٹھا رہی تھی کہ ایسی کونسی مجبوری تھی جس کی وجہ سے حکومت کو قوانین میں ترمیم کرنا پڑی ۔
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں جہاں دیگر قوانین میں ترامیم کیلئے بل پاس کئے گئے وہیں کلبھوشن یادیو کو سزائے موت کیخلاف اپیل کا حق دینے کیلئے بھی قانون سازی کی گئی ،مبینہ انڈین جاسوس کلبھوشن یادیو کو اپیل کرنے کا حق دینے سے متعلق یہ بل رواں سال جون میں قومی اسمبلی سے منظور کیا گیا تھا تاہم پارلیمان کے ایوان بالا سینیٹ سے اس کی منظوری نہیں ہو سکی تھی،کلبھوشن یادیو کو مارچ 2016 میں جاسوسی کے الزام میں پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔
اپریل 2017 میں پاکستان کی فوجی عدالت نے کلبھوشن جادھو کو جاسوسی کے الزام میں سزائے موت سنائی تھی جس کے بعد بھارتی سرکار اس معاملے کو عالمی عدالت انصاف میں لے گئی تھی جہاں 17جولائی2019کو عالمی عدالت انصاف نے اس پر فیصلہ سنا یا تھا ،فیصلے میں عالمی عدالت انصاف نے بھارتی جاسوس کی سزائے موت پر نظر ثانی اور اسے قونصلر تک رسائی دینے کا بھی کہا تھا ،عدالت نے قرار دیا تھا کہ پاکستان نے کلبھوشن جادھو کو قونصلر تک رسائی نہ دے کر ویانا کنونشن کی شق 36 کی خلاف ورزی کی ہے۔
عالمی عدالت نے کہا تھا کہ پاکستان کے مقامی قوانین میں اپیل اور نظرثانی کی شِق ہونی چاہیے جو فوجی عدالت کے فیصلے کو دیکھنے کے لیے کام آ سکے جس کے بعد وفاقی وزیر قانون نے کہا تھا کہ ریاست پاکستان ایک ذمہ دار ملک ہے اس لیے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل کرتے ہوئے ہی قانون سازی کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کلبھوشن جادھو سے متعلق بل کی قومی اسمبلی سے منظوری پر کہا تھا کہ اگر پاکستان یہ بِل منطور نہ کرتا تو انڈیا اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پاس پاکستان کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے پہنچ جاتا۔