عوام کی آمدن محدود اور کم ہوتی جارہی ہے اور ملک میں مہنگائی کا ایک نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہے۔ایک اخباری خبر کے مطابق مہنگائی میں اضافہ کی شرح 17.37 فیصد ہوگئی ہے ۔ ڈالر 178کے قریب پہنچ گیاہے۔ سینٹ میں بتایا گیا ہے کہ موجودہ حکومت کے تین سال کے دوران قرضوں میں 16 ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے جب کہ سود کی ادائیگی میں 7460ارب روپے ادا کیے گئے ۔
معاشی ابتری کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی حکومت کی حالت دگرگوں ہے۔ ایک کہنہ مشق صحافی کے مطابق سفارتی حلقوں نے سیاستدانوں سے ملنا چھوڑ دیا ہے جس سے تاثر یہ ہی لیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کے موجودہ اور آئندہ حالات کے بارے میں اپنی اپنی حکومتوں کو آگاہ کرچکے ہیں۔ حکومتی وزراء، ترجمان جو پہلے اعتماد کے ساتھ حکومت کے موجودہ اقتدار کے پانچ سال کی تکمیل اور آئندہ پانچ سال بھی حکومت کرنے کی نوید سنایا کرتے تھے اب نیم دلی کے ساتھ اپنے بیان دہرارہے ہیں۔ اتحادیوں کے ساتھ معاملات بھی آئے روز اونچ نیچ کا شکار رہتے ہیں۔ اتحادیوں کو شکایت ہے کہ جب حکومت کسی بحران کا سامنا ہوتا ہے تو وہ وقتی طور پر ان کے تحفظات دور کردیتی ہے لیکن اس کے بعد حکومت سرد رویہ اختیار کرلیتی ہے۔اپوزیشن کی جماعتیں بھی بھرپور احتجاجی مہم چلانے ا علان کرچکی ہیں، پارلیمنٹ دونوں ایوانوں کامشترکہ اجلاس جس میں انتخابی اصلاحات اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے سے متعلق قانون سازی مکمل کی جائے گی ، یہ تحریر رقم کرنے تک منعقد ہوچکا ہوگا۔اسی دوران گلگت بلتستان کے سابق چیف جسٹس رانا شمیم کے ایک بیان حلفی کا معاملہ بھی سامنے آگیا ۔ جس کی وضاحت بنیادی طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کو دینی چاہیے تھی مگر کابینہ کے ارکان وضاحتیں اور تاویلیں دیتے نہیں تھک رہے۔
حکومت کو معاشی صورتحال ، مہنگائی اور حلیفوں کے ساتھ سیاسی معاملات اور اپوزیشن کے احتجاج پر دباﺅ کا سامنا ہے۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت کی جانب سے کوئی ٹھوس اور مربوط معاشی پالیسی اور سیاسی حکمت عملی کا مظاہر ہ ہونا چاہیے تھا لیکن وزیر اعظم اور ان کے وزیروں اور مشیروں کا کھلنڈرا پن ہی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ اسد عمرجو بزعم خویش معاشی بقراط سمجھتے ہیں، مگر اس میدان میں ناکامی کے بعد اسلام آباد کے گلی محلوں میں جلسوں سے خطاب کرکے اپوزیشن جماعتوں کو احتجاج پر ”کُٹ“ کی دھمکی دے کر اپنی گرتی ہوئی ساکھ کو عوامی رنگ دے کر بحال کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس پر بھی ٹاس اور سپورٹس مین سپرٹ کی تان سنارہے ہیں۔
اپوزیشن کی جماعتیں جو حکومت مخالف نکتے پر تو متحد ہیں لیکن حکمت عملی پر اختلاف کی وجہ سے تقسیم بھی ہیں۔ یہ ہی وہ بنیادی وجہ ہے جس کے سبب حکومت اب تک قائم ہے۔ یہ جماعتیں اگر اپنے اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر متحد ہوتیں تو ایوان کے اندر تبدیلی لانا مشکل نہیںتھا۔ انتخابی اصلاحات پر بھی ہونے والے مشترکہ اجلاس میں حکومت کو صرف دو ووٹوں کی برتری حاصل ہے۔ اپوزیشن جماعتیں حکومت کے اتحادیوں سے بھی راہ و رسم بڑھا کر انھیں حکومت سے علیحدہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن ابھی تک اس میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اپوزیشن کے احتجاج سے ملک میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے یا حکومت کی گھر جاتی ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔ لیکن عوام کی پریشانیوں میں کمی کی امید دور دور تک نظر نہیں آتی ہے۔
2013ءکے انتخابات کا بنیادی نعرہ اُس وقت ملک کو درپیش بجلی کے بحران سے نجات دلانا تھا۔ آج ملک کے عوام جن مسائل کا شکار ہیں ایسے میں حکومت ہو آج کی اپوزیشن جماعتیں، اُنھیں ملک میں مہنگائی بے روزگاری، روپے کی قدر میں اضافے، درآمدات اور برآمدات کے فرق کے سبب تجارتی خسارے میں کمی ، گردشی قرضوں میں کمی کے لیے مربوط اور قابل عمل پروگرام دینا ہوگا۔ موجودہ حکومت تین سال سے ہر شعبے میں ناکامی کا ذمہ دار پچھلی حکومتوں کو قرار دے رہی ہے اور امید ہے کہ باقی مدت بھی اسی جوش و جذبے سے اس راگ کو جاری رکھے گی۔ اب اگر ایوان کے اندر تبدیلی آتی ہے یا پھر اپوزیشن کے احتجاج کی صورت میں قبل از وقت انتخابات ہوتے ہیں تو اپوزیشن کے پاس بھی مذکورہ مسائل کا حل ہونا چاہیے۔ اب عوام میںمزید یہ سننے کا حوصلہ نہیں ہے کہ وہ موجودہ حکومت یا آنے والی حکومت سے یہ سنیں کہ ملک کی خراب معاشی صورتحال کی ذمہ دار پچھلی حکومتوں کی پالیسیاں تھیں۔
ملک کی سیاسی جماعتوں پر جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی اجارہ داری اور تسلط ہے جن کے اپنے اپنے مفادات ہیں ۔ جن کی اقتدار ، اختیارات اور دولت کی خواہشات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی مقرر کردہ حد سے ہزاروں گنا روپیہ انتخابات پر خرچ کرتے ہیں لیکن عوام کے خون پسینے کی کمائی سے ادا گئے ٹیکس سے مفت ائر ٹکٹ، کیفے ٹیریا میں سستے کھانے ، مفت علاج اور تنخواہوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ کا ش کوئی ایک جماعت اپنے اقتدارکی مدت میں اپنے مفادات سے ہٹ کر صرف اور صرف عوام کے لیے سوچ سکے۔