پاکستان کی تاریخ میں عدلیہ کے حوالے سے سابق جج حضرات مولوی تمیز الدین سے لے کر ملک قیوم، بھٹو کیس کے حوالے نسیم حسن شاہ کا اعترافی انٹرویو، پاکستان کی سپریم کورٹ کا اپنے ہی چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف علم بغاوت، احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی رام کہانی ہمارے نظام انصاف پر بہت سے سوالیہ نشانات چھوڑ گیا۔ لیکن یہ سلسلہ رُکا نہیں اور اب گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کا ایک سیاسی قیادت کے حق میں لڑائی کے بعد یاد آنے والا مکا ہمارے نظام انصاف کو مزید پراگندہ کر چکا ہے۔ اصل میں رانا شمیم کا یہ دعویٰ عدلیہ پر ایک اور حملہ ہے اور بدقسمتی سے اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس قسم کے حملوں میں مسلم لیگ ن ہمیشہ بالواسطہ یا بلاواسطہ پیش پیش رہی ہے۔ اس قسم کے تمام انکشافات سے حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طور پر وقتی فائدہ اٹھاتی رہی ہیں لیکن کبھی بھی ان انکشافات کی تحقیق کا مطالبہ اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کسی سیاسی جماعت یا حکومت کا ایجنڈا نہیں رہی۔ سیاسی جماعتوں کی تمام تر توجہ اس قسم کے انکشافات سے سیاسی فائدہ اٹھانے پر ہونا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ماضی میں نظام انصاف کے کرتا دھرتاوں نے بھی ان انکشافات کو سنجیدہ نہیں لیا جس کی وجہ سے وقتی شہرت یا کسی سیاسی جماعت کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے یہ سلسلہ نہیں رُکا۔ اس قسم کے واقعات کے وقت تو اتنا شور اٹھتا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد مکمل خاموشی چھا جاتی ہے تاوقتیکہ کہ کوئی نیا شوشہ کھڑا نہ ہو جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ مریم نواز اور نواز شریف کی اپیل کی سماعت سے ایک
دن پہلے سابق جج رانا شمیم کا بیان آنا بھی سوالیہ نشان کھڑے کر رہا ہے اور حکومت نے اسے طے شدہ منصوبہ قرار دیا ہے۔ خاص طور پر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے بھی سابق جج رانا شمیم کے بیان کو نواز شریف کے حق میں تیسری گواہی قرار دیا اور ان کے معصوم ہونے کا فتویٰ جاری کر دیا۔ اس سے قبل احتساب عدالت کے جج ارشد ملک مرحوم کے بیان کو بھی وہ ایسے ہی استعمال کر چکی ہیں۔ ان بیانات کی حقیقت کی تہہ تک جانا چاہیے تا کہ واضح ہو کہ سچا کون اور جھوٹا کون؟ اسلام آباد ہائی کورٹ نے رانا شمیم کے بیان کا جو نوٹس لیا ہے اس میں تمام حقائق سامنے آنے چاہئیں۔
سابق چیف جسٹس نسیم حسن شاہ نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا افتخار احمد کے ٹی وی انٹرویو اعتراف کیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہماری عدلیہ اس کا نوٹس لیتی تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جاتا لیکن ایسا نہ کیا گیا جس کی وجہ سے بعد از ریٹائرمنٹ ”ضمیر“ جاگنے کا سلسلہ جاری رہا۔
اب گلگت بلتستان کے سابق چیف جج نے ایک بیان حلفی کے ذریعے جو پینڈورا بکس کھولا ہے لگ رہا ہے کہ جب تحقیقات ہوں گی تو وہ اس میں خود پھنس جائیں گے۔ ایک صوبے کے سابق چیف جج کی طرف سے پاکستان کے سابق چیف جسٹس پر الزامات کوئی چھوٹا واقعہ نہیں ہے اور اس پر اپوزیشن کو اسے تمام مہم کو اپنے حق میں استعمال نے ہمارے نظام انصاف پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں اور ان کے جوابات ضروری ہیں۔ اس میں انہوں نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حوالے سے مسلم لیگ ن کی قیادت کو پارسا ثابت کرنے کا جو تنازع کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے اس کی تہہ تک پہنچنا لازم ہے اور پس پردہ تمام کرداروں کو بے نقاب ضرور کرنا چاہیے۔ یہاں ایک سوال کھڑا ہوتا ہے اس قسم کے انکشافات اہم عہدوں پر براجمان افراد کو ریٹائرمنٹ کے بعد کیوں یاد آتے ہیں جبکہ عہدے پر ہوتے ہوئے وہ ہر اس عمل کے نہ صرف سہولت کار ہوتے ہیں بلکہ جس عمل کو متنازع قرار دیتے ہیں وہ اپنی آنکھوں کے سامنے ہونے دیتے ہیں بلکہ اس تمام عمل کا حصہ ہوتے ہیں۔ ایسے تمام افراد کا ایسا محاسبہ ہونا چاہیے کہ آئندہ اس کا مکمل سد باب ہو سکے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے جید سیاسی رہنما نوٹری پبلک کے ایک بیان پر راہی کا پہاڑ کھڑا کر رہے ہیں اور اس تصدیق شدہ بیان کو نواز شریف خاندان کے حق میں مصمم گواہی اور عدالتی فیصلے کے طور پر اچھال رہے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے نوٹری پبلک کو متعلقہ فیس ادا کر کے ہر ملک کے قانون کے مطابق کسی بھی شخص کے دیے گئے بیانات کی تصدیق کر دی جاتی ہے اور اس کی حیثیت ایک بیان سے زیاہ نہیں ہوتی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ ہمارے نظام میں سب سے مقتدر اور قابل احترام ادارہ ہے لیکن اس کے کچھ سابق اراکین اپنے ذاتی یا سیاسی مفاد کے لیے اس کے شفاف چہرے کو آلودہ کرتے رہتے ہیں۔ سابق چیف جج رانا شمیم کے ایک ایفی ڈیوٹ (بیان حلفی) کو بنیاد بنا کر ایک اخبار نے چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کیا ہے۔ اس کا نوٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز چیف جسٹس نے لے لیا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ عدالت کی غیر جانبداری پر حملہ آور ہونے والے ملزم اور تمام شریک ارکان کو قرار واقعی سزا دی جائے گی تا کہ یہ سلسلہ بند ہو جائے۔ ہمارے سامنے مسلم لیگ ن کے سپریم کورٹ پر حملے کے ملزمان کو جو سزا دی گئی ہے اسی طرح کا ایکشن اس ڈرامے کے کرداروں کے خلاف بھی ہونا چاہیے تا کہ لڑائی کے بعد مکوں کا سلسلہ بند ہو۔
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔