بیان حلفی ہلچل سے سیاسی منظر نامے میں ارتعاش

09:08 AM, 18 Nov, 2021

گلگت بلتستان کے سابق جج کی جانب سے نواز شریف اور مریم نواز کو 2018 کے عام انتخابات سے قبل ضمانت نہ دینے کی ہدایات جو ان کے دعوے کے مطابق اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے دی تھی کے انکشاف نے ملکی سےاسی صورتحال میں ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ پاکستانی میڈیا کی طرح بین الاقوامی میڈیا نے بھی اس خبر کو اہمیت کے ساتھ نمایاں کیا ہے۔ حقیقت تو وقت آنے پر معلوم ہو گی لیکن اس طرح بے پر کی خبروں سے ملک کی بڑی بدنامی ہوتی ہے، ہمارے اربابِ اختیار کوئی ایسی خود ساختہ سی کہانی گھڑ لیتے ہیں تا کہ بیرونی دنیا کو جگ ہنسائی کا موقع میسر آ سکے۔ بظاہر یہ الزام خود ساختہ اور بڑا بھونڈا معلوم ہو رہا ہے۔ یہ بات سمجھ سے باہر ہے وہ تو ایک چیف جسٹس تھے جب کہ ہم عام طور پر زندگی میں دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص موبائل پر بات کرتا ہے تو کسی اہم معاملے کو لوگوں کے سامنے ڈسکس کرنے سے کتراتا ہے اور اٹھ کر ایک طرف ہو جاتا ہے ، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک سٹنگ چیف جسٹس اتنی اہم بات اپنے ماتحت کے گھر کے لان میں چائے پیتے ہوئے اس کو گواہ بنائے گا اور پھر اس سے ایک کپ چائے مزید طلب کرے گا بڑی لغو سی بات لگتی ہے۔ اس میں ذرہ برابر بھی حقیقت معلوم نہیں ہوتی ہے اور میں ذاتی طور پر اس کو کسی صورت بھی ماننے کو تیار نہیں ہوں بلکہ یہ انتقامی سی بات لگتی ہے یا پھر اس میں کوئی دوسرا فائدہ یا وفاداری کا عنصر ہو سکتا ہے۔ چیف جسٹس سپریم کی طاقت کا کس کو اندازہ نہیں ہے وہ اگر ایسے کسی معاملے کو ٹیک اپ کرنا چاہے تو اسے ایک جج کے گھر میں بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے وہ کوئی بھی محفوظ جگہ استعمال کر سکتا ہے۔ پھر سابق چیف جج رانا محمد شمیم کا یہ کہنا کہ حلف نامہ کب اور کس کو دیا یہ ابھی نہیں بتا سکتا بھی شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے۔ سابق چیف جسٹس نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے اور کچھ دیگر واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے ان واقعات کو ان الزامات کا امکانی محرک قرار دیا ہے۔

سابق چیف جج کے بیان سے بھی بادی النظر میں شبہات کی کئی ٹھوس وجوہ موجود ہیں۔ جیسے کہ ساڑھے تین برس کا عرصہ گزرنے کے بعد چیف جج کو اسی موقع پر اس راز سے پردہ اٹھانے کی کیوں ضرورت محسوس ہوئی۔ دوسری اہم بات اس مبینہ گفتگو کی صرف ایک گواہ چیف جج کی اہلیہ تھیں جو کہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ لہٰذا اس بےیان حلفی کی حیثیت ایک کمزور الزام کے سوا کیا رہ سکتی ہے۔ جہاں شکایت پیدا ہو وہاں اس کے اظہار کے لئے طریقہ کار متعین ہے بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج کے مبینہ دعووں میں اس طریقہ کار کا پاس دکھائی نہیں دیتا۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ جب بھی سرکاری عہدوں پر براجمان رہنے والی شخصیات اپنی ملازمت کے پیریڈ میں جو کچھ دیکھتی، سنتی یا کرتی ہیں عام طور پر یہ راز تحریروں یا انٹر ویوز کے ذریعے منظر عام پر آتے ہیں۔ رٓیٹائر منٹ کے ساڑھے تین سال بعد نوٹری پبلک کے روبرو بیان 

دینے کی شائد یہ انوکھی مثال ہے۔ بادی النظر میں یہ خبر عدالت میں زیر سماعت کیس کی کارروائی پر اثر انداز ہونے، عدالت کو سکینڈلائز کرنے کی کوشش ہے تاکہ عدلیہ کی آزادی اور ججز کی غیر جانبداری پر عوام کے اعتماد کو مجروح کیا جائے۔ چونکہ یہ بیان ایک ساسی مقدمے کے ساتھ منسلک ہے لہٰذا اس بےان کی ایک سیاسی حیثیت بھی ہے اور اس کے اثرات ملکی سے اسی منظر نامے اور رائے عامہ پر مرتب ہونا بھی یقینی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست دان اس بیان حلفی پر زور شور سے بیان بازی کر رہے ہیں۔ 

اس سےاسی جھگڑے میں ملک کے کلیدی ادارے ہدف پر ہیں، یہ کوئی درست طریقہ نہیں ہے۔ قومی اداروں کی عزت اور تکریم ہی ریاست کی مضبوطی ہے۔ لہٰذا کوئی ایسا اقدام جو اداروں کو کمزور کرنے کا سبب بنتا ہو اور ریاست میں عوامی بے یقینی کا باعث ہو اس سے صرف نظر ممکن نہیں۔ چیف جج گلگت بلتستان کے ذاتی تعلقات کا برملا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہمارے سیاستدان اور اعلیٰ عدلیہ کے متعدد فیصلے یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا ریاستی نظام برطانیہ کی طرز پر بنایا گیا پارلیمانی جمہوریت کا نظام ہے مگر وہ بھول جاتے ہیں کہ پارلیمانی جمہوریت میں عدلیہ کی آزادی اور مکمل غیر جانبداری اس نظام کا بنیادی عنصر ہے۔ مشہور برطانوی جج لارڈ ڈیننگس کے بقول " برطانیہ کے ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم صرف آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کی وجہ سے ممکن ہوتی ہے" چنانچہ اس وقت وہاں انتظامیہ یا وزیرِ اعظم اپنی صوابدید پر ججوں کی تقرری نہیں کر سکتا۔ وہاں عدلیہ میں تقرریاں پندرہ افراد پر مشتمل ایک غیر جانبدار کمیشن کے ذریعے ہوتی ہیں جس کے اراکین اعلیٰ قابلیت اور تجربے کے حامل غیر سیاسی لوگ ہوتے ہیں۔ یہ کمیشن اشتہارات اور آن لائن طریقے سے امیدواروں سے درخواستیں وصول کر کے ان کے ٹیسٹ اور انٹرویو لیتا ہے۔ امیدواروں پر پولیس، محکمہ انکم ٹیکس اور بار ایسوسی ایشنوں سے رپورٹیں لی جاتی ہیں۔ حکومت کمیشن کی سفارشات کے مطابق عدلیہ میں تقرری کرتی ہے۔ اختلاف کرنے پر اسے تحریری طور پر وجوہات بیان کرنا ہوتی ہیں۔ پاکستان میں اس کے برعکس اہلیت رکھنے والے وکلا کا حق مار کر غیر آئینی طریقے سے حکومتیں اپنی صوابدید پر سے اسی مصلحتوں کی بنیاد پر عدلیہ میں تقرریاں کرتی ہیں۔ یہ سب کچھ خفیہ طریقے سے کیا جاتا ہے۔ محکوم عوام کو اس وقت پتہ لگتا ہے جب تقرریاں ہو جاتی ہیں۔ یہ طریقہ نہ صرف غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ہے بلکہ یہ جمہوریت کی جڑیں کاٹنے کے مترادف ہے۔ وقت آنے پر یہی جج ان سیاست دانوں کے لئے ڈھال کا کام کرتے ہیں انہیں مختلف جگہوں پر ریلیف مہیا کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کی اس قسم کی حرکتوں کی وجہ سے ملک میں قانون کی حکمرانی ناممکن ہوتی ہے اور عوام فوجی جرنیلوں کی طرف بطور مسیحا دیکھنا شروع کر دیتے ہیں بلکہ ان کی آمد پر خوشیاں مناتے ہیں۔ 

ہمارے ہاں ایسی صورتحال میں عدالت کے ہر چھوٹے بڑے فیصلے کو دانستہ طور پر غیر موثر بنایا جاتا رہا ہے اور دلیل یہ دی جاتی رہی ہے عدلیہ اپنی حدوں سے تجاوز کر رہی ہے۔ جمہوری نظام اور آئینی حکمرانی کے لئے اپنی حدوں کے اندر رہنے کا ہنر سیکھنا ہو گا۔ اسی میں سارے نظام کی بقا ہے۔ بظاہر یہ خبر شائع کرنے کا مقصد فراہمی انصاف میں رکاوٹ کی کوشش ہے۔ ججز کا احتساب اور ان پر تنقید ہو سکتی ہے لیکن انصاف کی فراہمی میں میں مداخلت اور عدالت کی غیر جانبداری و آزادی پر بے بنیاد دعوے کرنا انصاف کی بنیادوں کو ہلانے اور عدالتی نظام پر عوام کا اعتماد متزلزل کرنے کے مترادف ہے۔

ایک زمانہ تھا جب صحافت کو دنیا میں مشن کے طور پر استعمال کیا گیا۔ حقوقِ انسانی کی پامالی، ظلم، جبر و تشدد کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کا کام صحافت کے سہارے کیا گیا اور اس کا نتیجہ بھی سامنے آیا۔ دنیا بیشتر ممالک میں جہاں رنگ نسل، مذہب اور مختلف فرقوں کی بیاد پر تفریق کی جا رہی تھی اس کو ختم کرنے میں ایک موثر آلے کی طرح لوگوں نے صحافت کا استعمال کیا اور یہ دیکھا گیا کہ اس کا کافی گہرا اثر قوم کو ہوا۔ نا انصافی، لاقانونیت کے ساتھ ساتھ معاشرے میں گرتی قدروں کو درست کرنے کے لئے صحافت سے کام لئے گئے۔ لیکن اب گزشتہ کچھ برس سے دیکھا جا رہا ہے کہ صحافت کے تجارتی استعمال کو انتہائی گھٹیا انداز میں انجام دیا جا رہا ہے۔ جھوٹ اور بے بنیاد پراپیگنڈے کے توسط سے ملک میں اہک ایسا ماحول ترتیب جا رہا ہے جو ملک کو انارکی کے ماحول میں لے جانے باعث بن رہا ہے۔ خاص طور پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے کچھ گھرانے ان چیزوں میں ملوث ہیں۔

مزیدخبریں