گلگت بلتستان کے سابق جج کی جانب سے جمع کرائے گئے بیان حلفی نے ایک اور پنڈورا باکس کھول دیا اور 2018 کے عام انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھا دیا ہے۔ پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس کی تردید کی ہے مگر محض تردید سے معاملہ حل نہیں ہو سکتا۔ حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ یہ سارا منصوبہ لندن میں بیٹھے ہوئے اپوزیشن کے لیڈروں کا بنایا ہوا ہے کیونکہ مریم نواز شریف کے خلاف مقدمات کی سماعت ہو رہی ہے اور اس کا مقصد عدالتی نظام کو داغدار کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس حوالے سے اپنی کارروائی کا آغاز کیا ہے کہ یہ معاملہ عدالت کا ہے۔ جو الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ اپنی نوعیت میں دھماکہ خیز ہیں۔ یہ بیان حلفی برطانیہ میں نوٹری پبلک کے سامنے جمع کرایا گیا ہے۔ اس بیان حلفی میں گلگت بلتستان کے چیف جج رانا محمد شمیم نے الزام عائد کیا ہے کہ عام انتخابات سے قبل پاکستان کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ماتحت عدلیہ پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ میاں نواز شریف اور مریم نواز کی مختلف مقدمات میں ضمانت نہ لیں اور وہ اس کے عینی شاہد ہیں۔ ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے جج کو پیغام ارسال کیا کہ وہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت کی درخواست کر رد کر دیں۔ رانا شمیم نے اپنے بیان حلفی میں یہ بھی قرار دیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر یہ سب ظاہر کر رہے ہیں اور ان پر کوئی دباو موجود نہیں ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس خبر میں لگائے جانے والے الزامات کا نوٹس لیا ہے اور رانا شمیم سمیت اس اخبار کے نمائندگان کو بھی طلب کر لیا ہے اور اس عمل کو توہین عدالت قرار دیا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ نے اس قسم کے عمل کو عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے عوام کا عدلیہ پر اعتماد متزلزل ہوا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے جن خدشات کا اظہار کیا ہے وہ درست ہیں کہ اس قسم کے معاملات سامنے آنے سے عدلیہ کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچتا ہے لیکن یہاں معاملہ بالکل الٹ نظر آتا ہے۔ رانا شمیم جو خود عدلیہ کے ادارے میں رہے ہیں انہوں نے یہ سب الزامات کسی رپورٹر کے سامنے پیش نہیں کیے بلکہ رضاکارانہ طور پر ایک بیان حلفی جمع کرایا ہے۔ توہین عدالت کی کارروائی کا آغاز ان کے خلاف ہونا تو قرین انصاف ہے لیکن اس واقعے کورپورٹ کرنا کیونکر توہین عدالت ہو سکتا ہے۔ اخبارات اور صحافیوں کا کام حقائق کو صحیح انداز میں عوام کے سامنے رکھنا ہے۔ اگر رانا شمیم کی جانب سے بیان حلفی جمع نہ کرایا گیا ہوتا اور اسے ایک بریکنگ نیوز کے طور پر پیش کیا جاتا تو اس پر اخبار اور صحافی کے خلاف کارروائی ہو سکتی تھی مگر اس معاملے میں اخبار اور صحافیوں کو نشانہ بنانا قرین انصاف نہیں ہے اور ہمیں قوی امید ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ جو خود ایک زیرک جج ہے وہ اس مسئلہ کو صحیح تناظر میں سمجھ کر فیصلہ کریں گے۔
پاکستان کی سیاست میں عدلیہ کس حد تک دخل دیتی رہی ہے جسٹس اطہر من اللہ اپنے طویل کیرئیر میں اس کے شاہد رہے ہیں۔ بدقسمتی سے انتظامیہ نے ہمیشہ عدلیہ کو اپنے کالے کرتوتوں کو چھپانے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس معاملے کو ایک طرف رکھیں کہ اس میں سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے مگر ہماری عدالتی تاریخ اس طرح کے کارناموں سے بھری ہوئی ہے کہ کس طرح عدلیہ سول اور فوجی حکمرانوں کے ہاتھوں استعمال ہوتی رہی ہے۔ ہر طالع آزما کے ناجائز قبضے کو عدلیہ جواز فراہم کرتی رہی ہے۔
ہر حکومت پریس کی آزادی کے دعوے کرتی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے خلاف تنقید کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ نوازشریف کی حکومت کو یا عمران خان کی صحافی ہمیشہ نشانے پر رہے ہیں ہاں بے نظیر اور پیپلز پارٹی کے دور میں صحافت قدرے آزاد ہوتی ہے اور فوجی حکمران تو صحافت کو اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے استعمال کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف لگائے جانے والے الزامات معمولی نوعیت کے نہیں ہیں اور اسلام آباد ہائیکورٹ کو اس معاملے کے تہہ تک جانا چاہیے۔ ان الزامات نے گزشتہ عام انتخابات کی ساکھ کو مجروح کر دیا ہے اس لیے اس معاملے کو حتمی انجام تک لے کر جانا ضروری ہے۔ اگر یہ محض الزامات ہیں اور گلگت بلتستان کے سابق جج کو کسی سیاسی قوت نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے اور اس کے ذریعے عدلیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے تو اس میں ملوث کسی کردار کو معافی نہیں دی جانی چاہیے لیکن اگر اس میں ذرا سی بھی صداقت موجود ہے تو معزز عدالت کو اس کا نوٹس بھی لینا ہو گا۔ جسٹس اطہر من اللہ سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ غیر جانبداری سے اس معاملے کو سنیں گے اور میرٹ پر اس مقدمہ کا فیصلہ کریں گے۔ اس معاملے کو بھی دیکھنا ہو گا کہ الزامات خود عدلیہ کے اندر سے لگائے گئے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اس معاملے کے مکمل چھان بین ہو اور ان الزامات کو سپریم جوڈیشل کونسل میں لے کر جایا جائے۔ عدلیہ پر عوام کے متزلزل ہونے والے اعتماد کو اسی صورت بحال کیا جا سکتا ہے کہ ایک اعلیٰ تحقیقاتی کمیشن یا سپریم جوڈیشل کمیشن معاملہ کی مکمل چھان بین کر کے حقائق عوام کے سامنے رکھے۔ اگر اس معاملے کو مصلحت کے تحت دبا دیا گیا تو پھر یہ الزامات بھی تاریخ کا حصہ بن جائیں گے اور عدلیہ کے چہرے کو داغدار کرنے کا سبب بنیں گے۔
یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ عدلیہ کے اندر بھی یہ احساس موجود ہے کہ عدلیہ کو سیاست میں ایک فریق کے طور پر سامنے نہیں آنا چاہیے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ازخود نوٹس کے تحت شروع ہونے والی یہ کارروائی خدا کرے اپنے انجام تک پہنچے اور عدلیہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی روایت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو جائے۔