”پیسے مک گئے، سجن رُس گئے“

”پیسے مک گئے، سجن رُس گئے“
سورس: فائل فوٹو

پاکستان کا مجموعی بیرونی قرضہ 41 ہزار ارب روپے ہو چکا ہے اور اس میں سب سے زیادہ اضافہ موجودہ حکومت کے دور میں ہوا ہے۔ اس میں سعودی عرب سے حال ہی میں لیے جانے والے تین ارب ڈالر شامل نہیں ہیں اور نہ ہی اس میں وہ 6 ارب ڈالر کا آئی ایم ایف پیکیج شامل ہے جس کی بابت وزیر خزانہ شوکت ترین ہر ہفتے خوش خبری دیتے ہیں کہ وہ آنے والا ہے مگر آئی ایم ایف بضد ہے کہ بجلی گیس کی قیمت مزید بڑھائیں اور سٹیٹ بینک کو آزاد کریں کہ وہ جتنے چاہے نوٹ پرنٹ کر کے گلی کوچوں میں ڈال دے تا کہ قیمتوں میں مزید اضافہ ہو ۔ اب تو برطانیہ کے گارڈین جیسے مو

 
موقر اخبار نے بھی پاکستان میں مہنگائی کے بارے میں لکھا ہے کہ عمران خان نے عوام کوکچل کے رکھ دیا ہے۔ مشیر خزانہ بڑے حیلہ گر ہیں جب آئی ایم ایف ان کی بات کا یقین نہیں کرتی تو وہ خبر جاری کرتے ہیں کہ اب وزیراعظم عمران خان آئی ایم ایف سربراہ سے براہ راست بات کریں گے دو دن بعد کہتے ہیں کہ اب ضرورت نہیں ہے۔ اس غیر یقینی کی وجہ سے سٹاک ایکسچینج کئی بار گر چکی ہے۔ ڈالر کی قیمت 175روپے سے عبور کر چکی ہے مگر مشیر خزانہ چین کی مانسری بجا رہے ہیں اورکہتے ہیں کہ ڈالر کی اصل قیمت 165 روپے ہی ہے 10 روپے کا اضافہ وغیرہ ذخیرہ اندوزوں کی وجہ سے ہے گویا ذخیرہ اندوزی کوپکڑنا کسی اور حکومت کا مینڈیٹ ہے اگرپاکستان کو 16 ارب ڈالر مزید مل جاتے ہیں تو مجموعہ قرضہ میں مزید 10 ہزار ارب اضافہ ہوجائے گا اور ساتھ ہی مشیر خزانہ نے خبردار کیاہے کہ پٹرول کی قیمت مزید بڑھ سکتی ہے یعنی مزید تنگی۔

 
 حالات کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ اس وقت پاکستان کے مجموعی قرضہ کی سالانہ قسط پاکستان کی سالانہ آمدنی سے زیادہ ہو چکی ہے یعنی سادہ سی ریاضی یہ ہے کہ جتنا آپ کی آمدنی ہے اس سے زیادہ آپ کے ذمہ قرضہ ہے۔ آگے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ یہ ملک کیسے چلے گا۔

معیشت اور سیاست کو الگ تھلگ کرنا ممکن نہیں۔ اچھی معیشت اچھی سیاست کوجنم دیتی ہے لیکن یہاں اس کے برعکس ہو رہاہے۔ معیشت اور سیاست دونوں ایک دوسرے کا حلیہ بگاڑنے پر مصر ہے حکومت کی سب سے بڑی معاشی پالیسی یہی ہے کہ ٹیکس بڑھاتے جاو ، مہنگائی بڑھاتے جاو اور پناہ گاہیں اور دستر خوان کی تعدا د میں بھی اضافہ کرتے جائیں اس دور کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو مو

 
مورخ یہ ضرور لکھے گا کہ دوبارہ کسی پیشہ ور چندہ اکٹھا کرنے والوں کو ملک کی باگ ڈور کبھی نہ دینا کیونکہ ریاستیں چلانا چندہ مانگنے سے یکسر مختلف ذمہ داری ہے۔

معاشی منظر اورپس منظر کے بعدملاحظہ ہوکہ حکومت کو بہت بڑی ہزیمت اٹھانا پڑی جب انہوں نے پارلیمنٹ کے بلائے گئے مشترکہ اجلاس کو اس لیے ملتوی کر دیا کہ حکومت کو خطرہ تھا کہ اسے ووٹنگ میں شکست ہوجائے گی جبکہ حکومت کہتی ہے کہ ہم نے اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کے لیے اجلاس موخر کیا ہے جو حکومت تحریک طالبان پاکستان اس جیسی دیگر کالعدم تنظیموں کے ساتھ مذاکرات کرنے اور ان کی شرائط پر سمجھوتے کرنے کے لیے بے چین رہتی ہے اسے یہ توفیق نہیں ہو رہی کہ وہ سیاسی مخالفین یا اپوزیشن سے مذاکرات کا راستہ اپنائے۔یہ محض بہانہ ہے کہ مذاکرات کے لیے مشترکہ اجلاس ملتوی کیا گیا ہے۔ بقول مرزا غالب

خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا

اصل کہانی یہ تھی کہ حکومت کے لیے یہ اجلاس خطرے کی گھنٹی بن چکا تھا کہ اگر ووٹنگ میں حکومت کو شکست ہو گئی تو وزیراعظم اورکابینہ حکومت کرنے کا اخلاقی جواز کھوبیٹھیں گے اور ان ہاوس تبدیلی لازمی ہوجائے گی۔ یہ اصل وجہ تھی اطلاعات یہ بھی ہیں کہ تحریک انصاف کے 30 سے زیادہ ممبران جن کی اکثریت پنجاب سے ہے وہ ن لیگ کے ساتھ بیک چینل رابطے میں ہیں اوران کا کہنا ہے کہ ن لیگ اگر اگلے الیکشن میں انہیں ٹکٹ کی گارنٹی دے تو وہ اپنی موجودہ پارٹی کے خلاف ووٹ دے کر ان ہاوس تبدیلی یا پنجاب حکومت کی تبدیلی جیسے کرشمے دکھا سکتے ہیں۔

اس سے قطع نظر حکومت کی اتحادی جماعتیں ق لیگ اور ایم کیو ایم نے بھی حکومت کو انتخابی اصلاحات بل پرووٹ دینے سے صاف انکارکردیاہے جیسے جیسے حکومت کا Tenure پورا ہورہا ہے۔ اتحادی ساتھ چھوڑ رہے ہیں لیکن اس سے بھی بڑی خبر جہانگیر ترین کا ایرو پلین گروپ ہے جو آزاد جیت کر اقتدار پارٹی میں شامل ہوئے تھے وہ موسمی پرندے اپنے گھونسلے بدلنے کے لیے پر تول رہے ہیں پنجابی کہاوت ہے کہ ”پیسے مک گئے سجن رس گئے“۔ پی ٹی آئی کے سارے سجن ایک ایک کرکے انہیں خیربادکہنے والے ہیں اس میںپارٹی کا دوش اتنا نہیں جتنا ہماری سیاسی روایات کا ہے۔یہ سب کے ساتھ ہوتاہے اور ان کے ساتھ بھی ہو کر رہے گا۔ ویسے بھی اس پارٹی نے ماضی کی منفی جمہوری روایات کے فروغ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور ہر وہ کام کیا ہے جس کی مخالفت میں یہ تبلیغ کیاکرتے تھے۔ لہٰذا انہوں نے جو بویا ہے اب وہ کاٹنے کا وقت قریب ہے۔ یہ تعجب کی بات نہیں کہ جوپارٹی وزیراعظم گیلانی کو ترک وزیراعظم کی اہلیہ کی طرف سے سونے کا ہار جو عطیہ کیا گیا تھا اس کے غبن پر ملامت کیا کرتی تھی ایک وقت وہ بھی آیا کہ اپنی باری پر انہوں نے توشہ خانہ کے موصول شدہ تحائف کی تفصیل جاری کرنے سے انکار کردیا۔ ویسے یہاں پر ضمنی طور پر یہ عرض کرنا بے محل نہیں کہ اگر حکومت کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کی کارروائی کو چلنے دیا جاتا توآج شاید یہ پارٹی اس کیس میں جرم ثابت ہونے کے بعد کب کے اقتدار سے بے دخل ہو چکے ہوتے۔

حکومت انتخابی اصلاحات کے لیے کتنی مخلص اورسنجیدہ ہے اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ضمنی الیکشن ڈسکہ حلقہ این اے 75 کی انکوائری رپورٹ دیکھ لیں کہ کس طرح موجودہ حکومت نے ڈسکہ سیٹ جیتنے کے لیے بددیانتی ، خیانت اور منافقت کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے یہ رپورٹ جہاں حکومت کے خلاف ایک چارج شیٹ ہے وہاں بیوروکریسی کے کردار اور حکومت کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر ڈپٹی کمشنر اور DPO کے کردار پر ایک بدنما داغ ہے۔ یہ دونوں افسران محض نوکری بچانے کے لیے ضمیر فروشی کی تمام حدود پار کر گئے لیکن اس کے باوجود وہاں حکومت کو شکست ہوئی۔ اپوزیشن کوچاہیے تھا کہ وہ مشترکہ اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیتے اور حکومت سے مطالبہ کیا جاتا کہ اگر وزیراعظم انتخابی اصلاحات کے لیے اتنے ہی فکر مند ہیں تو سب سے پہلے ڈسکہ میں اپنے پارٹی عہدیداروں اور سرکاری ملازمتوں کے خلاف کارروائی کریں جنہوں نے ڈسکہ میں حکومت کو ناقابل بیان اور ناقابل معافی نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن افسوس کہ اپوزیشن نے ڈسکہ انکوائری رپورٹ پر اتنا ردعمل نہیں دیا جتنا کہ اس کا اخلاقی تقاضا تھا۔

آپ اپوزیشن کی مہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک دیکھ لیں یہ نہایت نیم دلی سے چل رہی ہے۔ اپوزیشن صرف دعا مانگنے پر اکتفا کیے ہوئے ہے کہ حکومت مہنگائی پر اپنے گناہوں کے بوجھ سے خود ہی ڈوب جائے تو اچھا ہے۔ شاید اپوزیشن یہ چاہتی ہے کہ موجودہ حکومت جتنا عرصہ اور زندہ رہے گی اتنا ہی اچھا ہے تا کہ عوام کے دل میں کوئی مزید غلط فہمی نہ رہے۔ حالانکہ اپوزیشن کو اخلاقی جرا

 
¿ت کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا کہ وہ اس نازک وقت پر عوام کے ساتھ کھڑے ہوتے۔ اس سے تو یہی تاثر ابھر رہا ہے کہ عوام اپنی بقا کی جنگ خود لڑیں۔ سیاست کی اس طویل راست کے کٹنے کے انتظار میں کتنے ہیں جو جان کی بازی ہار جائیں گے۔

رات ہر چند کہ سازش کی طرح گہری ہے

صبح ہونے کا مگر دل کو یقین رکھنا ہے