لاہور،تجزیہ کا رواینکر پرسن افتخار احمد نے کہا ہے کہ گلگت بلتستان کے الیکشن پر ایک انتظامی کمیٹی بنائی جائے جو رپورٹ مرتب کرے ۔ وہ پروگرام سیدھی بات میں میزبان بینش سلیم کے ساتھ گفتگو کررہے تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان کے الیکشن نتائج کی حقیقت سامنے آنی چاہئے .
کیونکہ آئندہ جنرل الیکشن ہونے ہیں ۔ اگر ہمیں تئیس سیٹوں کے نتائج پر اعتماد نہیں ہے تو آئندہ الیکشن میں کیا حال ہوگا پھر تو گلی گلی فساد ہوں گے ۔ یہ بہت بہتر وقت ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر مل کر بیٹھیں اور آئندہ جنرل الیکشن کے لئے کوئی لائحہ عمل طے کرلیں ۔ ہم سب کو ایمانداری کے ساتھ سارے معاملے کی چھان بین کرنی ہوگی ۔ہمار االیکشن کمشن بہت کمزو رہے جب الیکشن کمشن کمزور ہوتا ہے تو پھرایسے ہی معاملات سامنے آتے ہیں ۔ ہمیں صورتحال سے سیکھنے کی ضرورت ہے ہمیں لڑائی کی بجائے اس کا بہتر حل تلاش کرنا چاہئے ۔ ریاست تب ہی چلے گی جب سب اپنا اپنا کام کریں اگر ایسا نہیں ہوگا تو پھر کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ یا تو پھر صاف صاف کہہ دیں کہ ہمیں سول سپرمیسی قبول نہیں اور ہم ایک نیا سسٹم لانا چاہ رہے ہیں ۔ میری تو سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ کون سا کھیل کھیلنا چاہ رہے ہیں ۔ اگر سیاسی طاقت ناکام اور نااہل ہے تو پھر یہ ریاست مذاق بن جائے گی ۔ ہم لوگوں سے کہتے ہیں کہ ووٹ ڈالیں اور جب وہ ووٹ ڈالتے ہیں تو پھر چیختے ہیں کہ یہ کون لوگ جیت کرآگئے ہیں ۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جس وقت ن لیگ کا جلوس مزار قائد پر گیا تو میں وہیں تھا ۔ مزارقائد پر صفدر نے مجھے کہا کہ ایک ایجنسی مجھے گرفتار کرنا چاہتی ہے اور ان پر بہت پریشر ہے ۔ اس وقت ایف آئی آر درج ہوئی حالانکہ کوئی مدعی سامنے نہیں تھا ۔آج عدالت نے اس کیس کو خارج کردیا ہے اور عدالتی فیصلہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اس معاملے کا کوئی مدعی ہی نہیں تھا ۔ مزارقائد پر عمران خان کا بھی جلوس گیا تھا اور یہ سب کو پتہ ہے ۔ اگلے روز سندھ انتظامیہ اس سارے معاملے پر شرمندہ تھی اور وہ میڈیا کا سامنا نہیں کرپا رہے تھے ۔ اس دوران مریم نواز سے کسی نے پوچھا کہ کیا اب صفدر جیل میں رہے گا تو مریم نے کہا کہ ہم ساتھ آئے تھے اور ساتھ ہی جائیں گے اور پھر وہ دونوں ساتھ ہی گئے ۔ کیپٹن (ر) صفدر کو پکڑنے میں خدانخواستہ کوئی سانحہ رونما ہوجاتا تو پھر کیا ہوتا ۔
پروگرام میں شامل تجزیہ کار محسن بیگ کا کہناتھا کہ اس سارے معاملے میں کیپٹن (ر) صفدر کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ۔ کہا گیا کہ کیپٹن صفدر کو گرفتار کرنے والے انٹیلی جنس تھے اور وہ ہی ان کو لے گئے لیکن وہ کیسے انٹیلی جنس والے تھے کہ انہوں نے کچھ ہی گھنٹوں بعد صفدر کو چھوڑ دیا ۔ اس سارے میں پولیس کا مورال ڈاؤن ہوا ۔ ایک ادارہ دوسرے ادارے کو ایسے استعمال نہیں کرسکتا یہ پاکستان ہے کوئی بنا نا ری پبلک نہیں ہے ۔ اس سارے معاملے کی شدید مذمت کی جانی چاہئے ۔ گلگت بلتستان کے حالیہ الیکشن میں جو کچھ کرنا تھا مطلب جو بھی جوڑتوڑ کرنا تھا وہ پہلے ہی ہوچکا تھا ۔ بلاول اور مریم نے پہلی مرتبہ آزادانہ الیکشن کی مہم چلائی لیکن ہمارے ہاں بڑے جلسے اور جلوس کوئی اہمیت نہیں رکھتے ۔ عمران خان کی سوچ تھی کہ وہ الیکشن کے بعد کوئی تبدیلی لائیں گے لیکن وہ بھی اسی بس کا مزہ لینے لگے جس میں باقی سوا ر تھے ۔ یہ ملک 1973 کے آئین کے مطابق چل رہا ہے تو کیا آئین پر عمل ہورہا ہے ۔ گلگت بلتستان کا الیکشن کمشنر طاقتور بھی ہوتا تو کیا اس سے بھی طاقتور لوگ موجود نہیں ہیں ۔
تجریہ کار شوکت پراچہ نے کہا کہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ ہم سری نگر میں ہونے والے الیکشن کے نتائج پر احتجاج دکھایا کرتے تھے او ر آج ویسی ہی صورتحال گلگت بلتستان میں ہمیں نظر آرہی ہے۔ ساٹھ ستر لاکھ کی آباد ی کا کوئی والی وارث ہی نہیں تھا ہماری ریاست نے ان کو ووٹ کا حق بھی نہیں دیا توکیا یہ مقبوضہ کشمیر ہے یا گلگت بلتستان ہے ۔ گلگت کے عوام نے اپنا خون دے کر پاکستان میں شمولیت اختیار کی اور آج وہ سردی میں احتجاج کررہے ہیں کہ ان کا ووٹ چوری کیا گیا ہے ۔ گلگت میں جیتنے والے امیدوار وہ ہیں جنہوں نے پی ٹی آئی کے خلاف تقاریر کی ہیں ۔لاکھ اصلاحات کرلیں الیکشن سسٹم میں کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ ریاست پاکستان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا آزا دالیکشن افورڈ کرسکتے ہیں یا نہیں ۔