آج وہ بہت پُر جوش تھا ۔کئی ہفتوں کی محنت کا صلہ آج مل سکتا تھا اور ملے گا یہ اُسے پورا یقین تھا ۔
صُبح جلدی اُٹھا۔خاص طور پر نمازپڑھ کر اپنی کامیابی کی دُعا کی۔معمول سے زیادہ تیار ہوا اور کیوں نہ ہو تا آج یونیورسٹی کے تقریری مُقابلہ کے مہمانِ خصوصی مُحسنِ پاکستان "ڈاکٹر عبدالقدیرخان"تھے۔جن کے سامنے اُسے آج تقریر کرنا تھی ۔تمام اساتذہ کو بھی اُس کی کامیابی کا یقین تھا کیونکہ وہ بلا کا مقرر تھا۔کو ئی اُس کے دلائل ،روانی ،جوش کے سامنے ٹکنے کی ہمت ہی نہیں کر پاتا تھا ۔
میڈیا کی کوریج،اساتذہ کی اُمید ،مقابلے کا دباؤ اور"ڈاکٹر عبدالقدیرخان"جیسی شخصیت کے سامنے اظہارِ خیال کا موقع ان سب باتوں نے اُس کے لیے آج کے دن کو خاص الخاص بنا دیا تھا ۔بہترین تھری پیس سوٹ،چہرے پر ڈھیر ساری کریم،تازہ شیو ،نئے جو تے اور خوشبوؤں سے نہا کر وہ خود کو کسی ریاست کا شہزادہ محسوس کر رہا تھا۔ امی اور بہنوں نے تو نظر اُتارنا شروع کر دی تھی۔جوش کا یہ عالم تھا کہ ناشتہ بھی ڈھنگ سے نہ کر سکا ۔ اوپر سے اساتذہ کی کالز نے رہی سہی کسر پو ری کر دی تو بس تیار ہو تے ہی نکل پڑا اپنی موٹر سائیکل نکالی یہ جا اور وہ جا ۔
شہرِ اقتدار کا یہ با سی اپنی موٹر سائیکل پر تیزی سے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھا ۔ذہن مختلف خیالات کی آماجگاہ بنا ہو تھا ۔ اپنے ہی خیالوں میں مگن سُفیان کو اچانک ناگوار سی بو اپنے چاروں طرف محسوس ہو ئی ۔چونک کر یہاں وہاں دیکھنے سے کچھ سمجھ نہ آیا بو کو جھٹک کر سُفیان نے ایک بار پھر اُنھی حسین خیالات کو دعوت دی لیکن خیالات نے آنےسے منع کرتے ہو ئے اس بو سے جان چُھڑانے کا اشارہ کیا۔اب کی بار غور سے دیکھا تو مُعمہ حل ہو ا سامنے ایک گاڑی جا رہی تھی جو نہ جانے اس شہر کے کس کونے کا کچرا اُٹھائے اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھی ۔بظاہر تو یہ خوش آئند بات تھی کہ شہر سے کچرا صاف ہو رہا تھا لیکن ستم ظریفی دیکھیں کہ اس ٹرک نما گاڑی کی چھت نہ ہو نے کے باعث ہوا کی وجہ سے کچرا اُڑ اُڑ کر سڑک پر سے گزرنے والی ٹریفک کو نہ صرف اپنی جانب متوجہ کر رہا تھا بلکہ اس کچرے کی بو سے پورا ماحول مُعطر سا ہو گیا تھا ۔گاڑی والوں نے تو گاڑی کے شیشے چڑھا کر خود کو کسی حد تک محفوظ کر لیا تھا لیکن سب سے بُرا حال رکشہ او ر با ئیک چلانے والوں کا تھا جو نہ اس کچرے سے خود کو محفوظ کر سکتے تھے اور نہ اس کی بدبو سے خود کو مہکنے سے رُوک سکتے تھے۔کچرا اُٹھانے والی یہ گا ڑیا ں کچرا پھیلاتی ہو ئی جا رہی تھیں ۔سڑک سے جُڑے رہائشی علاقوں کے گھر اس کچرے کا ہوم ٹاؤن بنتے جا رہے تھے۔سفیان انتظامیہ کی اس نالائقی پر کُڑھ ہی رہا تھا کہ اچانک کچرے والی گاڑی اُس کے باُلکل سامنے آگئی اور اُس میں سے ایک گندی سی تھیلی اُڑ کر ایسے سُفیان کے چہرے سے چپکی کہ جیسے دُنیا میں اس کے وجود کا مقصد ہی بس یہ تھا ۔ ابھی اس افتاد سے وہ نمٹ نہ پایا تھا کہ کئی اور گندی تھیلیاں اس گا ڑی سے نکلی اور سُفیان کے گرد اس طرح طواف کرتے ہوئے چپکی جیسے برسوں کا بچھڑا محبوب اپنی محبوبہ سے ملتا ہے ۔اس ناگہانی آفت سے سفیان گرتے گرتے بچا بائیک سڑک کے کنارے کھڑی کر کے خود کو ان سے چُھڑایا ۔یو نیورسٹی اسی حالت میں پہنچا ۔چہرے پر گندگی،کپڑوں سے بو ،لوگوں کی حیرت بھری نگاہوں ،دبی دبی ہنسی،اساتذہ کی منت سماجت سب کو نظر انداز کر کے اسی حالت میں اپنی باری پر اسٹیج پر پہنچا اور تقریر شروع کرتے ہو ئے کہا کہ آج کی میری تقریر کا عنوان ہے
"کچرا پھیلانے والی گاڑیاں"۔
نوٹ: سفیان نے اس تقریری مقابلے میں اول انعام حاصل کیا ۔
سہیل رضا تبسم
(ادارے کی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں)