دی ہیگ: عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن پھانسی کے معاملے پر بھارت کی درخواست پر 15 مئی کو محفوظ کیا گیا فیصلہ آج سنا دیا۔ فیصلے میں پاکستان کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے عالمی عدالت نے کہا جاسوسی میں گرفتار افراد کو علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کلبھوشن کا معاملہ عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار میں آتا ہے۔بھارت کو مطلع کرنے میں ناکامی ویانا کنونشن کے دائرے میں آتی ہے جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان ویانا کنونشن کے تحت قونصلر رسائی پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
#ICJ PRESS RELEASE: Order in #India v. #Pakistan Case delivered today (provisional measures) https://t.co/fCj0yBhptd pic.twitter.com/SMVd41TrfM
— CIJ_ICJ (@CIJ_ICJ) May 18, 2017
عالمی عدالت نے حکم امتناعی جاری کرتے ہوئے پاکستان کو حکم دیا کہ حتمی فیصلے تک کلبھوشن کو پھانسی نہ دی جائے۔جج رونی ابراہم نے بھارت کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی بھی دینی چاہیئے۔
جج کا فیصلہ پڑھتے ہوئے یہ بھی کہنا تھا کہ بھارت کا دعویٰ ہے کہ یادیو بھارتی شہری ہے اور پاکستان بھی یہ مانتا ہے لیکن عدالت صرف اسی صورت حتمی فیصلہ سنا سکتی ہے جب عدالت کا اختیار ثابت کیا جا سکے اور بھارت کے مطالبے اور عدالتی اختیار کے درمیان لنک موجود ہے۔
فیصلے میں کہا گیا پاکستان اور بھارت دونوں ویانا کنونشن کے رکن ہیں جبکہ پاکستان اور بھارت میں سے کوئی بھی ویانا کنونشن سے انکار نہیں کرتا ۔ آرٹیکل 1 کے تحت عدالت کے پاس ویانا کنونشن کی تشریح میں تفریق پر فیصلہ دینے کا اختیار ہے لیکن ابھی پتا نہیں کہ قانون کے مطابق یادیو نے اپنی سزا کیخلاف اپیل کی یا نہیں۔
بھارت نے 10 مئی کو کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رابطہ کر کے پاکستان پر ویانا کنوینشن کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا اور 15 مئی کو درخواست پر پہلی سماعت کے دوران بھارت نے عالمی عدالت انصاف سے استدعا کی تھی کہ پاکستان کو کلبھوشن کی سزائے موت کو معطل کرنے کی ہدایات جاری کی جائیں کیونکہ اس فیصلے سے کلبھوشن کے بنیادی حقوق مجروح ہوئے ہیں۔
پاکستانی کی وکلا ٹیم نے اپنے دلائل میں کہا ویانا کنونشن کے مطابق کلبھوشن یادیو کا کیس عالمی عدالت کے دائر کار میں نہیں آتا اس لیے یہ کیس نہیں چلایا جا سکتا۔ بھارتی جاسوس کو قانونی کارروائی مکمل کیے جانے کے بعد سزائے موت کی سزا سنائی گئی ہے اور اسے خود پر لگائے گئے الزامات کے دفاع کیلئے وکیل بھی فراہم کیا گیا تھا۔
یاد رہے 10 اپریل کو آئی ایس پی آر کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں گرفتار بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچانے کے الزام میں پھانسی کی سزا کا اعلان کیا گیا تھا ۔
Indian R&AW agent #Kalbushan awarded death sentence through FGCM by Pakistan Army for espionage and sabotage activities against Pakistan. pic.twitter.com/ltRPbfO30V
— Maj Gen Asif Ghafoor (@OfficialDGISPR) April 10, 2017
پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کی گئی جبکہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے کلبھوشن یادیو کو سزا سنائی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے مجرم کی سزائے موت کی توثیق کی۔
کلبھوشن کی گرفتاری اور اعترافی بیان
واضح رہے بھارتی نیول کمانڈر کلبھوشن یادیو کو 3 مارچ 2016 کو بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔ کلبھوشن نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ وہ ’را‘ کے لیے کام کرتا تھا اور بلوچستان آنے سے قبل وہ ایران کے سرحدی علاقے چابہار میں موجود تھا۔کلبھوشن نے یہ بھی اعتراف کیا کہ وہ بلوچ علیحدگی پسندوں سے رابطے میں تھا اور اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی 'را' میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔
کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کے ساتھ ہی پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنسی را کا بڑا نیٹ ورک بھی پکڑا گیا جو پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں ملوث تھا اور سی پیک منصوبے کو ثبوتاژ کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی۔
اپنے شہری کی گرفتاری کے بعد بھارت کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن نے بھارتی بحریہ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور اُس کے بعد سے اُن کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارتی وزرات خارجہ کی طرف سے کلبھوشن تک سفارتی رسائی کے لیے حکومت پاکستان سے رابطہ بھی کیا گیا تھا۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں