یران اور سعودی عرب کی باہمی رقابت کی تاریخ شیعہ سنی فرقوں کے آغاز جتنی پرانی ہے جس میں مذہب سیاست اور کاروباری مفادات کا ٹکراؤ شامل ہے۔ اس تاریخی مخاصمت میں شدت اس وقت آئی جب 1979 کے ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی نے اس انقلاب کو مڈل ایسٹ کے دیگر ممالک کو ایکسپورٹ کرنے کا اعلان کیا۔ یہ اسرائیل اور امریکہ کیلئے ایک عطیہئ خدا وندی تھا کے مڈل ایسٹ کے دو اہم ممالک باہم دست و گریبان ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن گئے اگر یہ صورتحال بپا نہ ہوتی تو ایک تو فلسطین آزاد ہو چکا ہوتا اور دوسرا آج اسرائیل اتنا مضبوط نہ ہوتا جتنا وہ اس وقت ہے۔
آج تک مڈل ایسٹ کو امریکہ نے اپنی ایک کالونی کے طور پر چلایا ہے اور یہاں پر تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی اور اسرائیل کو درپیش خطرات کا ازالہ کرتا رہا اور اس پس منظر میں مڈل ایسٹ کی غیر جمہوری ریاستیں امریکی اسلحہ کی سب سے بڑی خریدار رہیں۔ 2011ء کے عرب سپرنگ انقلاب میں الجزائر یمن اور لیبیا جیسے ممالک میں حکومتیں تبدیل ہوئیں۔ اسی اثناء میں شام اور بحرین میں بھی تختہ الٹانے کیلئے خونریزی ہوئی مگر یہاں عرب سپرنگ ناکام ہوگیا۔
موجودہ ولی عہد اور عملاً سعودی بادشاہ محمد بن سلمان جب 23 جنوری 2015 ء میں وزیر دفاع کے طور پر اپنے والد کی کا بینہ میں شامل سوئے تو سعودی عرب کے ایک نئے دور کا آغاز ہوتا ہے یہ دور ماضی کی روایات سے ہٹ کر بڑا ہنگامہ خیز دور ہے اسی سال سعودی عرب نے یمن میں جنگ کا آغاز کیا اور ایرانی مداخلت کی وجہ سے یہ جنگ کئی سال تک فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکی۔ 2016ء میں سعودی عرب نے شیعہ رہنما شیخ نمر کو پھانسی دیدی جس کے ردعمل میں ایران میں سعودی سفارتخانے پر مشتعل ہجوم کے حملہ کر دیا جس کے بعددونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہو گئے۔ محمد بن سلمان نے ایران کو نیچا دکھانے کیلئے اربوں ڈالر، اسلحہ امریکا سے خریدا اسی اثناء میں بحریں اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے۔
حالیہ برسوں میں جب چین دنیا کی سپر پاور امریکہ سے زیادہ طاقتور ہو گیا تو اس نے اپنی پرانی سفارتی پالیسی تبدیل کرتے ہوئے بین الاقوامی سفارتی تعلقات اور اثر و رسوخ بڑھانے کی پالیسی شروع کی۔اس سے پہلے چائنا کا موقف یہ تھا کہ دنیا کے معاملات حل کرنے کی بجائے اپنے گھر پر توجہ دی جائے مگر اب وہ سفارتکاری میں امریکہ کا چیلنج کر سکے۔
چین نے اپنی بیک چینل سفارتکاری کے ذریعے خاموشی سے سعودی عرب اور ایران کو آمادہ کیا کہ وہ آپس کی دشمنی چھوڑیں اور خطے کی ترقی کیلئے مل کر کام کریں ایران نے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے سب سے بڑے دشمن امریکہ کا مڈل ایسٹ میں ہولڈ ختم کرنے کیلئے سعودیہ سے تعلقات بحال کرنے کا فیصلہ کیا اور دنیا کو اس وقت یہ سن کر حیرت ہوئی جب دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے چین میں مشترکہ پریس کانفرنس میں سفارتی تعلقات کی بحالی کا اعلان کر دیا۔ امریکہ ابھی تک shock کی پوزیشن سے باہر نہیں نکل سکا کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ چین نے پہلی بار مڈل ایسٹ میں اپنی زور دار انٹری سے ثابت کر دیا کہ وہ اب یہاں بھی امریکی مفادات کو چیلنج کرنا چاہتا ہے۔
یہ دلچسپ بات ہے کہ چین سعودیہ اور ایران یہ تینوں ممالک غیر جمہوری حکمرانی کے زمرے میں آتے ہیں۔ سعودی عرب اور چین میں تو جمہوریت اور الیکشن کا تصور ہی نہیں ایرانی جمہوریت ایک کنٹرولڈ جمہوریت ہے جو دہاں کے روحانی پیشواء کے تابع ہے۔ اب یہ تینوں ممالک امریکہ کیلئے علاقائی طور پر ایک بہت بڑا مسئلہ کھڑا کر سکتے ہیں آپ یہ سمجھیں کہ یہ امریکہ کی مڈل ایسٹ سے چھٹی کرنے کا وقت ہے۔
چین سعودی پٹرول کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ دوسری طرف چین اپنی انرجی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی وجہ سے ایرانی تیل کی خریداری میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ایرانی تیل چائنا کو ترسیل پر لاگت بھی کم آتی ہے جبکہ ایران پر امریکی اقتصادی پابندیاں جو اوبامہ کے دور میں اٹھا لی گئیں تھیں۔ ٹرمپ کے معاہدے سے منحرف ہو جانے کے بعد دوبارہ عائد کر دی گئیں۔ چائنا کی کوشش ہے کے مستقبل میں امریکی ڈالر کی بجائے اپنی کرنسی کو فروغ دے کر امریکی اجارہ داری کا خاتمہ کیا جاسکے۔ اس پس منظر میں ایشیا اور مڈل ایسٹ میں امریکہ کے خلاف ایک بہت بڑا بلاک بننے جا رہا ہے جو علاقائی گروپ کی شکل میں ایک طاقت بن سکتا ہے۔ اس پیش رفت نے امریکہ اور بالخصوص اسرائیل میں خطرے کی گھنٹیاں بجادی ہیں۔ اب اسرائیل سعودی عرب کے بارے میں محتاط رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جائے گا اس سارے معاملے میں ایران کو سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔
اس سارے سیاسی شطر نج کے کھیل میں پاکستان کی پوزیشن کا اندازہ لگانا مشکل ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اس وقت اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے اور وہ جس آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر مجاور بن کر بیٹھا ہے اس میں سب سے زیادہ بڑا شراکت دار امریکا ہے۔ جب آئی ایم ایف زیادہ سختی کرنے لگتا ہے تو ہم امریکہ کی منت سماجت کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے کہیں کہ ہم پر رحمدلی فرمائے۔ اس وجہ سے پاکستان کے اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ سعودی عرب ایران چین کی اس ٹرائینگل کا حصہ بن سکے یا اپنا وزن ان کے پلڑے میں ڈال سکے ایسا کریں گے تو امریکہ فوراً آئی ایم ایف کے ذریعے آپ کی رسی کھینچ لے گا۔
اصولی، نظریاتی اور مذہبی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ایران سعودیہ میں فاصلوں کے گھٹنے میں پاکستان کو فائدہ ہے اس سے ملک میں بھی فرقہ بندی اور انتہا پسندی کم ہوگی ایک وقت تھا کہ یہ دونوں ممالک پاکستانی تنظیموں کو ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی کیلئے فنڈ دیتے تھے جس سے کشیدگی میں اضافہ ہوتا تھا۔ اب مڈل ایسٹ مصالحت کی راہیں کھلنے سے پاکستان پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے اس ساری پیش رفت کے راستے میں ابھی بہت زیادہ وقت ہے لہٰذا اردو محاورہ ہے کہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو یعنی دیکھیں اور انتظار کریں۔