جھوٹ بولنا بھی ایک فن ہے اور پھر اس فن کو پاکستان کی تاریخ میں اگر کسی نے نقطہ عروج پر پہنچا کر کمال بخشا ہے تو بلا شبہ وہ عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس میں جو مہارت عمران خان کو ہے دوسرا کوئی اس کے نزدیک بھی نہیں پھٹکتا یہی وجہ ہے کہ انھیں جھوٹ کے فن کو بیانیہ کی شکل دے کر اور پھر ہر جھوٹے بیانیہ کو اپنے زور خطابت سے اپنے فین کلب میں پذیرائی دلوانا ایک ایسا فن ہے ایسا ہنر ہے اور پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک ایسی نادر و نایاب مہارت ہے کہ کوئی دوسرا لاکھ کوشش کر لے لیکن چاہتے ہوئے بھی جس بلند مقام پر عمران خان فائز ہیں اس تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ عمران خان پر توشہ خانہ، فارن فنڈنگ، بی آر ٹی سمیت اربوں روپے کرپشن کے کیس ہیں لیکن جھوٹ اور پھر اس جھوٹ کو لے کر کیا ہی شاندار بیانیہ بنایا گیا کہ ”اور کچھ نہیں ملا تو توشہ خانہ کیس بنا دیا“ جب فارن فنڈنگ کیس کی سماعت ہو تو کہہ دیا کہ ”اور کچھ نہیں ملا تو فارن فنڈنگ کیس بنا دیا“ لیکن حکومت نے جب توشہ خانہ کا ریکارڈ میڈیا میں دے دیا تو پھر کیاکمال بیانیہ بنایا کہ خود تو توشہ خانہ سے اربوں لوٹ کر کھا گئے لیکن عمران خان پر ایک گھڑی بیچنے کا مقدمہ بنا دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں بھی توشہ خانہ سے گھڑی لینے کے الفاظ نہیں کہے بلکہ ”میری گھڑی میری مرضی“ کے مطابق گھڑی بیچنے کا کہا گیا تاکہ عوام کے ذہن توشہ خانہ سے گھڑی لینے میں جو کرپشن کی ہے اس طرف نہ جائیں۔توشہ خانہ سے دیگر نے جو کچھ بھی لیا وہ قانون کے مطابق ادائیگی کر کے لیا اور بادی النظر میں اگر کسی نے غیر قانونی طور پر توشہ خانہ سے کچھ لیا ہے تو ان سب کے ریفرنس نیب میں زیر التوا ہیں لیکن بیانیہ بنایا گیا کہ ”خود تو توشہ خانہ سے اربوں لوٹ کر کھا گئے لیکن عمران خان پر ایک گھڑی بیچنے کا مقدمہ بنا دیا۔“ یہ بیانیہ بھی چل جاتا لیکن پھر کسی نے سوشل میڈیا پر کہا کہ پی ٹی آئی نے نیا بیانیہ بنایا ہے کہ ”چور ہمارے کپتان جیسے ہی ہیں ہمارا کپتان نے تھوڑا زیادہ لے لیا ہے تو کیا ہوا“۔ اس کے بعد اس بیانیہ کے غبارے کی ہوا نکل گئی۔اسی طرح ایک بیانیہ بنایا گیا اور یہ بیانیہ عمران خان سے لے کر تحریک انصاف کی پوری قیادت اور کارکنوں تک ہر ایک کی زبان پر ہے کہ عمران خان پر 85ایف آئی آرز کا اندراج کیا مذاق نہیں ہے پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی پر اتنی ایف آئی آرز نہیں ہوئیں۔
بظاہر اس بات میں بڑا وزن محسوس ہوتا ہے کہ اتنی ایف آئی آرز درج کرنے کی کیا ضرورت تھی لیکن بات اتنی سادہ نہیں ہے کہ جس طرح اسے بیان کیا جاتا ہے۔ جن کیسز پر سب سے زیادہ واویلا کیا جا رہا ہے وہ توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ کے کیس ہیں۔ فارن فنڈنگ کا کیس تو 2014کا ہے جبکہ توشہ خانہ کیس میں جس طرح فواد چوہدری نے پریس کانفرنس میں دبئی کے پاکستانی نژاد بزنس مین سے اپنی لا تعلقی کا اظہار کیا اور دوسرے ہی دن اسی بزنس مین کے ساتھ فواد چوہدری کے موبائل
سے چیٹ کے اسکرین شاٹس میڈیا پر آ گئے کہ جن کی آج تک تردید نہیں ہوئی اور پھر جس طرح کہا گیا کہ وہ گھڑی دبئی کی بجائے اسلام آباد کی ایک دکان پر بیچی گئی تھی اور ایک رسید کہ جسے پھر اسی دکاندار نے جعلی قرار دیا اور کہا کہ اس کے پاس نہ کوئی گھڑی بیچی گئی اور نہ اس نے کوئی گھڑی خریدی تو یہ جھوٹ ثابت کرتے ہیں کہ توشہ خانہ کیس کوئی مذاق یا انتقامی کارروائی نہیں ہے بلکہ توشہ خانہ میں چار سال تک جو دال پکائی جاتی رہی اس میں کچھ نہیں بلکہ کچھ سے بہت زیادہ کالا ہے۔ اس کے علاوہ پچاس ارب ایک پراپرٹی آئیکون کو دے کر جو کہ ریاست پاکستان کے تھے اس کے بدلے زمین لینا بھی کوئی مذاق نہیں ہے۔ اسکے علاوہ دیگر کیسز کہ جنھیں یہ مذاق کہتے ہیں وہ بھی کوئی مذاق نہیں ہیں اس لئے کہ اگر عمران خان کسی جلسے میں یا میڈیا پر اپنے کسی خطاب میں انتہائی حساس عہدے پر فائز کسی عسکری شخصیت کو ایک مخصوص نام سے بار بار پکارتے ہیں کہ جس کا ذکر اس کالم میں نہیں کیا جا سکتا اور پھر اسے سائکو پیتھک، ذہنی مریض کہہ کر ایک جھوٹا بیانیہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں تو کیا اس پر ایف آئی آر کا اندراج کوئی مذاق ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ اس اہم شخصیت کے خلاف اگر ان کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو وہ قوم کے سامنے رکھیں تو ہم کیا پوری قوم ان کا ساتھ دے گی اور اگر پاکستان کی عدالتوں میں یہ کیس نہ بھی چلے تو اب تو یہ بات ثابت ہو چکی ہے خان صاحب کے بیرون ملک زلمے خلیل زاد جیسے دوست تو اس پر شور کریں گے اور عالمی عدالت بھی ان کے پیچھے کھڑی ہو گی۔اگر عمران خان جس عدالت میں ان کا کیس ہو اسی عدالت کی خاتون جج کو اور ان کے اہل خانہ کو بھرے مجمع میں تقریر کرتے ہوئے سنگین دھمکیاں دیں تو اس پر ایف آئی آر کا اندارج مذاق ہے۔ کیا ریاستی اداروں کے خلاف ایک جلسہ میں بات کرنے پر اسی وقت ایف آئی آر درج ہو پھر دوسرے دن اداروں کو دوبارہ دھمکیاں دیں تو کیا دوبارہ بلکہ اگر سہ بار دھمکیاں دینے پر پھر ایف آئی آر درج ہو تو کیا ایسا نہیں ہونا چاہئے اور کیا یہ مذاق ہو گا۔ بغیر کسی ثبوت کیاعمران خان اپنے قتل کا الزام کسی پر بھی لگا دیں تو اس پر متاثرہ فریق اپنی عزت و ناموس کی حفاظت کے لئے ایف آئی آر اگر درج کروا کر عدالت سے داد رسی نہیں مانگے گا تو اس کے پاس اور کیا راستہ ہے۔اگر 25مئی کو توڑ پھوڑ ہو گی تو کیا ایف آئی آر درج نہیں ہو گی۔اگر 21گھنٹے عمران خان کے گھر سے پٹرول بم پولیس پر پھینکے جائیں گے اور ساٹھ سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوں گے تو کیا ایف آئی آر کے اندراج کی بجائے ریاست خان صاحب کو پھولوں کے ہار پہنائے۔یہ وہ تلخ زمینی حقائق ہیں کہ جس میں عمران خان جو اپنے آپ کو ہر قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں بار بار قانون شکنی کرتے ہیں اور نتیجہ میں ریاست کو مجبوری کے تحت ضابطہ کی کارروائی کے لئے ایف آئی آر درج کرنی پڑتی ہے اور خان صاحب کو پھر ضمانت بھی مل جاتی ہے تو 85ایف آئی آرز کا اندراج مذاق نہیں ہے بلکہ در حقیقت عمران خان نے ریاست کو مذاق بنا رکھا ہے۔
ابھی تو ہماری دعا ہے کہ عمران خان کے گھر میں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی خبریں جھوٹ ہوں اس لئے کہ عمران خان نے اگر ان کو اپنی حفاظت کے لئے رکھنے جیسی حماقت نہیں بلکہ بلنڈر کیا ہے تو سمجھیں کہ یہ ان کی حفاظت میں نہیں بلکہ نرغہ میں ہیں اور ان کی زندگی کے لئے سب سے زیادہ یہی لوگ خطرہ بن سکتے ہیں کیونکہ ان کی اپنی ایک نفسیات ہوتی ہے کہ ہم نے سرینڈر نہیں کرنا ہتھیار نہیں ڈالنے یہ لوگ جان لے بھی لیتے ہیں اور جان دے بھی دیتے لہٰذا حکومت کا فرض ہے کہ وہ خان صاحب کی زندگی کی حفاظت کے لئے انھیں اس صورت حال سے نجات دلوائے۔