سندھ پولیس میں نابینا ایس پی تعینات 

سندھ پولیس میں نابینا ایس پی تعینات 
کیپشن: سندھ پولیس میں نابینا ایس پی تعینات 
سورس: file

کراچی:  سندھ پولیس میں نابینا ایس پی کی تعیناتی کیخلاف درخواست پر سندھ ہائیکورٹ نے  پولیس، صوبائی حکومت و دیگر سے وضاحت طلب کرلی۔

جسٹس محمد شفیع صدیقی اور جسٹس عدنان الکریم میمن پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو سندھ پولیس میں نابینا ایس پی ٹیلی کمیونیکیشن محمد علی کی تعیناتی کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔

درخواست گزار کے وکیل نے موقف دیا کہ پولیس ایک فورس ہے اور اس میں کسی نابینا یا ڈس ایبل فرد کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ڈس ایبل پرسن کلرک ہوسکتا ہے، مالی ہوسکتا ہے لیکن ایس پی رینک کا افسر نہیں آسکتا۔ میں نے بہت ساری ججمنٹس پڑھیں لیکن کہیں بھی ایسا موجود نہیں کہ ایس پی رینک کا افسر نابینا ہو۔

انہوں نے کہا کہ اس ایس پی نے کوئی ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی (ڈی پی سی) کوالیفائی نہیں کی۔ اس کے بیج میٹ (ساتھی افسران) آج تک ہیڈ کانسٹیبل ہیں لیکن اسے ایس پی بنایا گیا۔ اس نے اپنے کمنٹس میں خود لکھا ہے کہ وزیراعلی نے یہ عہدہ دیا ہے۔ وزیر اعلی کو اختیار ہی نہیں کہ وہ سول سرونٹ رولز میں مداخلت کریں۔ اگر اس معاملے کو نہ روکا گیا تو اسی طرح تعیناتیاں ہوتی رہیں گی۔

نابینا ایس پی ٹیلی کمیونیکیشن کی تعیناتی پر عدالت نے حیرانی کا اظہار کیا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے، کیا پولیس کے اعلی عہدے پر نابینا افسر تعینات کیا جا سکتا ہے؟ آپ نے کیسے نابینا پولیس افسر کو عہدے پر تعینات کیا۔ کیا ایسی کوئی مثال سندھ پولیس میں موجود رہی؟

اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے موقف دیا کہ لاہور میں ایک نابینا جج تعینات کیا گیا۔ ڈس ایبل کوٹہ پر بھرتی نوعیت ملازمت پر مشروط ہوتی ہے۔ سندھ پولیس میں نابینا افراد کے لیے ایک فیصد کوٹہ موجود ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے ایسے کہیں آپ نابینا کو ڈرائیور بھرتی نہ کرلیں۔ آپ نے سمجھا پہلے تو سارے ہی ہیں ایک اور سہی۔ عدالتی ریمارکس پر قہقہے لگ گئے۔