ماسکو: روس کی ثالثی میں افغان امن کانفرنس آج ماسکو میں ہو رہی ہے۔مذاکرات میں افغان حکومت اور طالبان کا وفد شرکت کرے گا ۔
روسی میڈیا کے مطابق پاکستان ،چین ،ایران ،ترکی اور قطر کے مندوبین بھی اجلاس میں شریک ہوں گے۔افغان حکومت کی جانب سے عبداللہ عبداللہ12 رکنی وفد کی جبکہ طالبان وفد کی نمائندگی افغان سیاسی دفتر کے سربراہ ملا غنی بردار کریں گے۔
امریکا کی جانب سے واشنگٹن کے خصوصی مندوب برائے افغانستان زلمے خلیل زاد ماسکو مذاکرات میں شریک ہیں جب کہ پاکستان کی نمائندگی سینیئر سفارت کار محمد صادق کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ دوحہ میں امریکا اور طالبان کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق امریکا کو یکم مئی تک اپنی تمام افواج افغانستان سے نکالنا ہیں۔ اسی شرط پر طالبان نے صدر اشرف غنی کی حکومت کے ساتھ مذاکرات کی حامی بھری تھی۔
گزشتہ برس ستمبر میں طے پانے والے اس معاہدے پر عمل درآمد سست روی کا شکار ہے۔ افغان فریقوں کے باہمی مذاکرات میں بھی زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ یکم مئی کی ڈیڈ لائن قریب آتے جانے کے ساتھ ساتھ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے بے یقینی اور خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
واشنگٹن حکومت امن مذاکرات کو دوبارہ فعال بنانے کی خواہش مند ہے اور اس کی کوشش ہے کہ افغان طالبان اور کابل حکومت شراکت اقتدار کی کسی صورت پر متفق ہو جائیں۔
ماسکو حکومت بھی افغانستان میں ایک عبوری حکومت کے قیام کی خواہش مند ہے۔ تاہم اس خیال کو صدر اشرفف غنی کی حکومت سختی سے مسترد کر چکی ہے۔ منگل کے روز بھی انہوں نے ایک تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ افغانستان میں اقتدار کی منتقلی کا واحد راستہ نئے انتخابات ہیں۔
صدر ٹرمپ کے دور صدارت کے دوران افغانستان میں امن کے حوالے سے ہونے والے زیادہ تر مذاکرات کی میزبانی قطر کر رہا تھا۔ قطر میں افغان طالبان نے سن 2013 سے اپنا دفتر بھی قائم کر رکھا ہے۔ کابل حکومت سمیت کئی دیگر فریق امن مذاکرات مختلف ممالک میں کرانے کے مطالبے کرتے رہے ہیں۔