واشنگٹن :امریکا میں تعینات رہنے والے پاکستانی سابق سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں پاکستان میں موجود بعض لوگوں نے امریکی حکام کی معاونت کی جبکہ معروف امریکی تحقیقاتی صحافی کا بھی کچھ ایسا ہی کہنا ہے۔واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل پر آنے والے سخت رد عمل پر حسین حقانی کا کہنا تھا کہ جی ہاں پاکستان میں کچھ لوگوں نے ایبٹ آباد آپریشن کے دوران امریکا کی مدد کی لیکن یہ مدد انہوں نے آزادانہ طور پر کی، انہوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ سیمور ہرش کی اسٹوری میں بھی کچھ حقائق شامل ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل کے اختتام میں حسین حقانی نے اس بات کا اشارہ بھی دیا کہ انہوں نے 2008 کی انتخابی مہم کے دوران اوباما کی ٹیم سے جو تعلقات قائم کیے تھے وہی بالآخر مئی 2011 میں اسامہ بن لادن کی آپریشن میں ہلاکت کا سبب بنے۔نجی ٹی وی سے امریکی تحقیقی صحافی سیمور ہرش نے کہا کہ جی ہاں میں درست تھا، اور مجھے اب اس پر پہلے سے زیادہ یقین ہے کیوں کہ جب میں نے وہ آرٹیکل لکھا تھا اس وقت کے مقابلے میں اب میں اس بارے میں زیادہ جانتا ہوں۔
بعد ازاں ہرش کا یہ آرٹیکل گزشتہ برس شائع ہونے والی ان کی کتاب دا کلنگ آف اسامہ بن لادن میں شامل کر لیا گیا تھا۔حسین حقانی نے کہا کہ مئی 2011 میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا معاملہ ان پاکستانیوں کے لیے ایک خون رسد زخم ہے جو یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کیوں اور کیسے ہوا۔حالانکہ پاکستان نے امریکی کارروائی کی تحقیقات کرنے لیے ایک کمیشن بنایا تھا جس کی تحقیقات کے نتائج کبھی منظرعام پر نہیں لائے گئے جبکہ افواہوں اور قیاس آرائیوں کے لئے میدان کھلاچھوڑ دیا گیا۔
ہرش نے اس بات کو دہرایا کہ کس طرح پاکستانی فوج کے ایک ریٹائرڈ افسر نے اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کو ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا اشارہ دیا اور 2 کروڑ ڈالر انعام لے کر امریکا منتقل ہوگئے، اب وہ واشنگٹن کے مضافاتی علاقے میں اپنی نئی اہلیہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔