دنیا کے ماہرین اس بات پر پریشان ہیں کہ مودی سرکارکے دور میں مسلمانوں کی نسل کشی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ،مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے مگرعالمی برادری کو کوئی پروا تک نہیں۔
روانڈ میں 1994 میں نسل کشی سے برسوں قبل پیش گوئی کرنے والے جینوسائیڈ واچ کے بانی ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے روانڈا اور میانمار میں ہونے والے واقعات کا نریندر مودی کی حکومت سے موازنہ کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں اسی طرح مستقبل قریب میں مسلمانوں کی نسل کشی ہوسکتی ہے۔جسٹس فار آل آرگنائزیشن کے ذریعہ منعقدہ ایک ورچوئل تقریب سے خطاب کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ہندوستان نسل کشی، ظلم و ستم کے مرحلے 8 میں ہے، قتل و غارت گری سے صرف ایک قدم دور ہے۔ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی ’’یہ ہوتا دیکھ کر بہت خوش ہوں گے‘‘۔آر ایس ایس جب سے قائم ہوئی ہے نفرت سے بھری ہوئی ہے، یہ بنیادی طور پر ایک نازی تنظیم ہے، اور حقیقت میں، اس نے ہٹلر کی تعریف کی، ڈاکٹر گریگوری اسٹینٹن نے اپنا ویڈیو خطاب جینوسائیڈ واچ کی جانب سے بھارت میں 2002 سے نسل کشی کے حوالے سے کیے گئے انتباہ کو نمایاں کرتے ہوئے شروع کیا، 'جب گجرات میں قتل عام ہوا تھا اور ہزاروں مسلمان جاں بحق ہوئے تھے۔ اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی تھے اور انہوں کچھ نہیں کیا تھا، درحقیقت، کئی ثبوت ہیں کہ انہوں نے قتل عام کی حوصلہ افزائی کی تھی' اور مودی اب بھارت کا وزیراعظم ہے اور انہوں نے اپنی سیاست کو وسیع کرنے کے لیے 'مسلمان مخالف، اسلاموفوبیا کی بیان بازی' کا استعمال کیا۔ مودی دو طریقوں سے یہ کرنے گیا جس میں سے ایک مقبوضہ کشمیر 2019 میں خصوصی حیثیت ختم کرنے اور دوسرا شہریت ترمیمی ایکٹ منظور کیا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا مقصد وادی کو ہندو اکثریتی علاقہ بنانا تھا، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور مزید یہ کہ شہریت کے قانون میں ترمیم بھی خصوصی طور مسلمانوں کے حوالے سے تھا۔
بھارتی مسلمانوں کے خلاف انتہا پسندوں کے مظالم اور نسل کشی کوئی نئی بات نہیں ، ازل سے یہ تشدد جاری ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بھارت میں بھی 2020-21 ء کا بیشتر حصہ کورونا وائرس کی عالمی
وبا کی وجہ سے لاک ڈاؤن میں گزرا۔ اس دوران نقل وحمل کی وسیع تر پابندیوں کے باعث دیگر جرائم میں تو کمی آئی، لیکن مذہبی بنیادوں پر ہونے والی جھڑپوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا۔ بھارت میں پچھلے برس 25 مارچ سے 31 مئی تک ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ تھا۔ سرکاری رپورٹ کے مطابق 2020 میں مذہبی فسادات کے واقعات کی تعداد 2019 کے مقابلے میں دوگنا ہو گئی۔ بھارت میں جرائم کا ریکارڈ جمع کرنے والے قومی دفتر کی جانب سے شائع کردہ تازہ رپورٹ 'کرائم اِن انڈیا 2020ء ‘ کے مطابق گزشتہ برس ملک میں فرقہ وارانہ اور مذہبی فسادات کے 857 مقدمات درج کیے گئے جبکہ 2019 میں ان کیسز کی تعداد 438 اور 2018 میں 512 تھی۔ ان مذہبی فسادات میں سے 520 واقعات محض نئی دہلی میں پیش آئے، جو متنازع شہری قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا مرکز بنا رہا تھا۔
ہندو اکثریتی ملک بھارت میں دنیا کی تیسری بڑی مسلم آبادی بستی ہے۔ 1947 میں بھارت کی برطانوی راج سے آزادی کے بعد سے ہندو اور مسلمان برادریوں کے درمیان فسادات میں اب تک ہزاروں افراد کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔بھارتی دارالحکومت دہلی میں مذہبی فسادات کے بدترین واقعات دیکھے گئے۔ یہ پرتشدد فسادات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کی جانب سے منظورکردہ متنازع شہریت ترامیمی بل کے نفاذ کے نتیجے میں شروع ہوئے تھے۔
راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ یا آر ایس ایس بھارت کی ایک انتہا پسند ہندو تنظیم جو خود کو قوم پرست تنظیم قرار دیتی ہے۔بھارت میں ہونے والے فرقہ وارانہ معاملوں میں اس تنظیم کا ہاتھ رہا ہے۔ یہ تنظیم ہندو سوائم سیوک سنگھ کے نام سے بیرون ممالک میں سرگرم ہے۔اس تنظیم کا کہنا ہے کہ بھارت ایک ہندو ملک ہے اور اسی بات کو لے کر یہ تنظیم فرقہ وارانہ فسادات بھی کراتی ہے۔گویابھارت میں دنگے فسادات برپا کرنے میں اس تنظیم کا نام سر فہرست ہے۔ اسی تنظیم کے رکن نے مہاتما گاندھی کو قتل کیا ۔ احمدآباد، بہا ر کے جمشید پور فرقہ وارانہ فساد میںبھی یہ تنظیم ملوث رہی۔اس کے علاوہ 6 دسمبر 1992ء کو اسی تنظیم کے اراکین بابری مسجد کو شہید کرنے میں پیش پیش رہے۔
آر ایس ایس تنظیم کی انتہا پسندی کی وجہ یہ ہے کہ قدیم ہندو خیال کرتے ہیں کہ آریہ نسل کے لوگ اصل انڈین ہیں اور ہندوؤں کی دو اہم کتابیں 'مہا بھارت' اور 'راماین' صرف مذہبی کتابیں نہیں بلکہ تاریخی حقیقت ہیں اور ان کے کردار ہزاروں برس پہلے حقیقت میں وجود میں تھے۔ لہٰذا وہ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ اسلام ، مسیحیت اور کمیونزم جیسے بیرونی عوامل نے ہندوؤں کی قدیم تہذیب و تمدن کو بہت نقصان پہنچایا ہے ۔ لہٰذا یہ مذاہب ہماری تہذیب اور معاشرے میں بگاڑ پید ا کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں ہندوستان صرف ہندوؤں کا ہے اور ہندوؤں کے لیے ہے۔ بھارت کے سکول کے نصابوں میں پڑھایا جاتا ہے کہ آریہ نسل کے لوگ تین سے چار ہزار سال قبل وسطی ایشیا سے انڈیا آئے اور بیشتر ہندو انھی کی نسلیں ہیں۔لیکن ہندو قوم پرست اس تصور کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آریہ یہیں کے تھے اور وہی بھارت کے اصلی باشندے تھے جن کے ہم وارث ہیں۔