آسمان کی آنکھ جو کچھ دیکھ رہی ہے کیا 22کروڑ عوام بھی وہی دیکھ رہے ہیں۔ اطلاعات کا ایک سیل رواں ہے جو آنکھوں اور کانوں کو بہائے لے جا رہا ہے ہر ایک منٹ اور ہر پل کچھ نہ کچھ آنکھوں کے سامنے سے نیا گزرتا ہے جس سے ہر پاکستانی حیرت میں مبتلا تو نہیں کہوں گی بلکہ محظوظ ہونے کا درجہ دوں گی ،ہاں حیرت میں دو طرح کے لوگ مبتلا دیکھ رہی ہوں ایک پڑھا لکھا با شعور طبقہ،دوسرا وہ بڑے بوڑھے جنہوں نے اپنی زندگی میں انہوں نے کبھی یہ نہیں دیکھا جو اب اُن کے سامنے ہو رہا ہے۔
ایک وقت تھا جب پرنٹ میڈیا کا دور تھا ،ٹی وی بھی کسی کسی کے گھر میں ہوا کرتا تھا تب کے دور کو اگر پُر سکون دور کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ اُس دور میں ایک بات بڑی زبر دست تھی کہ خبریں جو بھی ہوتی تھیں اُن میں صداقت ہوتی تھی،جو بھی خبر اخبار کی زینت بننی ہوتی تھیں اُن کو پہلے اچھے سے تصدیق کیا جاتا تھا پھر وہ خبر اخبار کی زینت بنتی تھی۔ تب کے دور کی ایک خاص بات یہ تھی کہ عزتیں سب کی سانجھی تھیں ہر کوئی ایک دوسرے کی عزت کا پاس رکھتا تھا کوئی کسی کی پگڑی کو نہیں اُچھالتا تھا ،اگر خدا نخواستہ کسی علاقے میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا تولو گ اُس کو اُچھالتے نہ تھے بلکہ ایک دوسرسے کو اُس مشکل سے نکالنے کی بھر پور کوشش بھی کرتے تھے۔جو خبر پرنٹ میڈیا میں آتی عوام بھی اُس خبر پہ اعتبار کرتے تھے، جیسے جیسے وقت بدلتا گیا حالات و واقعات میں تبدیلی آتی گئی ۔میڈیا آزاد ہوا چینلز میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا اس کے ساتھ ساتھ خبروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا،تھوڑا مزید وقت گزرا تو وائے فائے ،اور سوشل میڈیا کی بھرمار ہوگئی۔
پہلے لوگ جب پرنٹ میڈیا میں رکھے جاتے تھے تو اُن کو باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی تھی ،ایک دور تھا جب صرف پی ٹی وی کا دور تھا جہاں لوگوں کو کسی بھی کام کے لیے،کسی گلوکار کو،اگر کوئی اینکر بننے آیا، یا کسی بھی آرٹسٹ کو پہلے تو مہینوں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑ تا تھا اور جب اُن کی باری کوئی مہینوں بعد آہی جاتی تو اُنہیں ،ایک،منٹ دیا جاتا اور اُس ایک منٹ کی پرفارمنس اگر اُن کے معیار پہ پورا نہ اترتی تو فوری طور پہ اُن کو رجیکٹ کر دیا جاتا۔اور رجیکٹ ہونے والا شخص بھی کسی طرح کا احتجاج نہ کرتا تھا بلکہ اپنی شخصیت میں مزید نکھار پیدا کرکے دوبارہ منظر پہ آتا،اگر اُس وقت اگر معیار کو اہمیت دی جاتی تھی تو اُس وقت کے لوگوں کا کام بھی باکمال تھا،اگر اُس وقت کو اور اب کے وقت کا ہم موازنہ کریں تو بہت افسوس ہوتا ہے کہ یہ آخر ہو کیا رہا ہے اس سے تو صاف یہی دکھائی دیتا ہے کہ ہر کوئی دانشور، اینکرز کی بھرمار اور باخبر عوام دکھائی دے رہے ہیں۔ اس سارے موجودہ منظر کو تو دیکھتے ہوئے یہی سمجھ آرہا ہے کہ اخبار پڑھنے والے ،ٹی وی چینلوں کی خبریں سننے دیکھنے والے،ٹاک شوز کرنے والے،اور اُنہیں بغور دیکھنے والے اور بڑے بڑے چینلز کو چلانے والے بے خبر ہیں اور سمارٹ فون والے، سب سے زیادہ باخبر ہیں جو سوشل میڈیا،ٹک ٹاک، سنیک، اور یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں۔ گزشتہ چھ دہائیوں میں حقیقی خبریں سینہ بہ سینہ چلتی تھیں اب سوشل میڈیا پہ ویڈیوز اور آڈیوز میں دستیاب ہیں۔پہلے دور میں کوئی بھی اہم خبر ہوتی تھی تو اُس کی فوٹو کاپیاں بانٹی جاتی تھیںیا سائیکلو اسٹائل کیے جاتے تھے۔مگر اب واٹس ایپ گروپوں میں گردش کر رہی ہیں ٹویٹ ہوتی ہیں اور یو ٹیوب چینل پہ دکھائی دیتی ہیں ۔
انہونیاں ہو رہی ہیں کوئی معیار نہیں ہے بڑے بڑوں کی پگڑیاں اچھالی جا رہی ہیں،دستاریں سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے۔جعلی خبروں کو ہی حقیقی خبریں تصور کیا جانے لگا ہے۔یوٹیوب کی بات کریں تو ہر بندہ سکالر بن کے آن بیٹھا ہے وہ لوگ جو سالہا سال سے لکھ پڑھ رہے ہیں وہ ان کے آگے معمولی ہو گئے ہیں۔یوٹیوب پہ اپنے ویورز اور سبسکرائب بڑھانے کے لیے غلط کیپشن کا استعمال کیا جاتا ہے یہ تو میں یو ٹیوب کے معیار کی بات کر رہی ہوں کیونکہ جب کوئی معیار نہیں ہوگا تو ایسی ہی چیزیں رونما ہونگی۔
اسی طرح اگر میں ٹک ٹاک کی بات کروں تو اس ایپ کو استعمال کرنے کا ڈھنگ ہماری قوم کو شاید آیا ہی نہیں اس ایپ میں صرف ناچ گانا،اور فحاشی کو ہی معیار بنا دیا گیا ہے جو لڑکیاں اس پہ جتنے تنگ اور نیم برہنہ کپڑے پہن کے ناچیں گی اُتنے ہی اُس کے لائق اور فالورز بڑھیں گے۔ افسوس!
پہلے خبریں چینلز کو موصول بھی ہوتی تھیں تو اُن کو سنسر کرنے کی ضرورت ہوتی تو اُن کو سنسر کیا جاتا تھا مگر ا ب تو سب کچھ کھلے عام ہو رہا ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں کسی کی بھی برہنہ ویڈیوز لیک ہو جاتی ہیں کوئی بھی خبر منظر پہ آجاتی ہے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ٹک ٹاک پہ بھی انہی لوگوں کو فالو کیا جاتا ہے جو اس بے حیائی کا حصہ بنتے ہیں ۔آجکل تو بے حیائی کا ایسا عالم ہے کہ آپ یونیورسٹیز میں چلے جائیں ماحول ایسا ہو چکا ہے کہ ماں باپ بچوں کو تعلیم کی غرض سے بھیجتے ہیں آپ اگر موازنہ کریں تو آپ کو بھی احساس ہو کہ اسقدر مہنگائی میں ماں،باپ کیسے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں اور بچے اپنی ٹک ٹاک کی رنگینیوں کی چکا چوند میں اس قدر کھو چُکے ہیں کہ اُس کے پیچھے ماں باپ کی بے بسی، بالکل محسوس نہیں ہوتی کہ کیسے ماں، باپ، مہنگے سکولوں اور یونیورسٹیز کی فیس ادا کرتے ہیں کہ اُن کے بچے اچھی تعلیم حاصل کر سکیں ۔مگر افسوس!
خطرات بڑھ رہے ہیں،شاخیں درختوں سے سوال کرنے لگی ہیں،کچی فصلیں وقت سے پہلے پک چُکی ہیں،ہائے افسوس!
آج یہ ماحول اگر پروموٹ ہو رہا ہے اس میں کہیں نہ کہیں ہم بھی حصہ دار ہیں ہماری خاموشی اور بچوں کو بے جا چھوٹ آج ہماری خاموشی کے بدلے ہماری کھڑی فصلیں تباہ ہو رہی ہیں اور ہمیں خبر تک نہیں ۔ یاد کیجئے اُس وقت کو شاید کسی کو میرے اس کالم کو پڑھ کے یاد آجائے کہ پہلے گھروں کے دروازے سستے تھے مگر گھروں کے آگے پردہ ہوا کرتا تھا اور دروازے بھی کھلے ہوتے تھے بلا خوف خطر ،کبھی کسی نے سوچا وہ پردہ ایک گھر کی خواتین کو پیغام بھی دیا کرتا تھا اُس پردے کو دیکھ کر خواتین کو احساس رہتا تھا کہ پردہ رکھنا ہے کسی بھی نامحرم سے مگر آج کے اس ماڈرن دور میں گھروں کو 2لاکھ کا دروازہ بھی ہم لگا لیتے ہیں مگر پھر بھی ہم غیر محفوظ ہیں،کیونکہ آج خواتین اور مردوں کو گھر کی عزت کا احساس نہیں رہا اور نہ پردے کا، پہلے وقتوں میں گھر کچے ہوتے تھے مگر لوگوں کے کردار پکے ہوتے تھے،اگر کوئی کسی کے صحن میں داخل ہوتا تھا تو اُس گھر کی بہن کوبہن اور بیٹی کوبیٹی تصور کیا جاتا تھااور ماں کو ماں کا درجہ دیتا تھا مگر اب وہ بات نہیں رہی نہ تو وہ دہلیز و دروازے رہے اور نہ ہی وہ داخلی دروازے کے آگے پردہ ، نہ ہی وہ حیا کا پیمانہ اور نہ ہی وہ کردار کی پختگی یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔