پیانگ یانگ: شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات اور محاذ آرائی دونوں کے لیے تیار رہنا ہو گا اور بالخصوص محاذ آرائی کے لیے مکمل طور پر تیاری کرنی ہو گی۔
شمالی کوریا نے اس سے قبل امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کی جانب سے سفارتی روابط قائم کرنے کی کوششوں کو ٹھکرا دیا تھا۔ یہ پہلی بار ہے کہ کم جونگ ان نے براہ راست جو بائیڈن انتظامیہ کے بارے میں کوئی تبصرہ کیا ہے۔
کم جونگ ان اپنے ملک کے سینیئر رہنماؤں کے ساتھ دارالحکومت پیونگ یانگ میں گفتگو کر رہے تھے۔ شمالی کوریا پر حکومت کرنے والی ورکرز پارٹی کی سینٹرل کمیٹی کی رواں ہفتے میٹنگز کا آغاز ہوا ہے اور ان میٹنگز کے دوران صدر کم جونگ نے اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ شمالی کوریا کو غذا کی قلت کا سامنا ہے۔
شمالی کوریا کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق رہنما کم جونگ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں خاص طور پر پوری طرح تیاری کرنی ہو گی کہ اپنی ریاست کے وقار کا دفاع کر سکیں اور اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں، خود مختار طریقے سے اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر لے جائیں، پُرامن ماحول برقرار رکھیں اور شمالی کوریا کی سکیورٹی کو یقینی بنائیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ شمالی کوریا کسی بھی ایسی جارحیت کا فوری جواب دے گا جس کا مقصد کورین جزیرہ نما پر کنٹرول حاصل کرنا ہو۔ کم جونگ ان کی نئے امریکی صدر کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی ابھی تک چل رہی ہے۔
انتخابات سے قبل جو بائیڈن نے کم جونگ ان کو ’ٹھگ‘ قرار دیا تھا اور جوبائیڈن کی تقریب حلف برداری سے کچھ روز قبل شمالی کوریا نے فوجی پریڈ میں اپنی عسکری قوت کا مظاہرے کیا تھا جس میں انھوں نے ایک نئے میزائل کو بھی متعارف کرایا تھا۔
اپریل میں جوبائیڈن نے شمالی کوریا کو عالمی سکیورٹی کے لیے سخت خطرہ قرار دیا تھا جس کے جواب میں شمالی کوریا نے شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی صدر کا بیان یہ صاف ظاہر کرتا ہے کہ وہ امریکی کی شمالی کوریا کے خلاف جارحیت پر مبنی پالیسی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
امریکہ نے حال ہی میں شمالی کوریا کہ خلاف اپنی پالیسی کا از سر نو جائزہ لیا ہے اور کہا کہ امریکہ کورین جزیرہ نما کو مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں سے صاف کرنا چاہتا ہے۔ ادھر جو بائیڈن نے عہد کیا ہے کہ شمالی کوریا کی جانب ان کی رویہ سفارتکاری پر اور ’سخت روک تھام‘ کے اقدامات پر مبنی ہو گا۔
امریکی پریس سیکریٹری جین ساکی کہتی ہیں کہ ہماری پالیسی کسی بڑی سودے بازی پر مرکوز نہیں ہو گی بلکہ وہ سٹریٹجیک تحمل مزاجی پر توکل کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ شمالی کوریا کے حوالے سے سوچ سمجھ کر ایسے عملی اقدامات کرے گا جن کی بنیاد سفارتکاری پر ہو گی اور ’عملی پیشرفت‘ کے لیے کوشش کی جائے گی۔
کم جونگ ان امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے تین مواقعوں پر ملاقات کر چکے ہیں لیکن شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنے کے معاملے میں کوئی پیشرفت نہ ہو سکی۔ سیئول میں ایواہ وومن یونیورسٹی سے منسلک ایسوسی ایٹ پروفیسر لییف ایرک ایسلی کہتے ہیں کہ بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہے کہ گیند اب شمالی کوریا کے کورٹ میں ہے لیکن کم جونگ کی حکومت خود بھی بڑے تحمل کا مظاہرہ دکھا رہی ہے۔
وہ مقامی مسائل پر توجہ دے رہے ہیں اور امریکہ سے زیادہ حوصلہ افزا بیانات دیکھنا چاہتے ہیں۔ شمالی کوریا ممکنہ طور پر مذاکرات کی میز پر صرف اسی صورت میں واپس جائے گا جب وہ مقامی طور پر ملک میں وبا کے بعد معاشی حالات کو بہتر بنا سکے۔