کوئٹہ: صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بجٹ اجلاس سے قبل اپوزیشن ارکان اور پولیس آمنے سامنے، صورتحال کشیدہ ہو گئی۔
تفصیلات کے مطابق صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بجٹ اجلاس سے قبل اپوزیشن نے صوبائی اسمبلی کے چاروں گیٹ تالے لگا کر بند کر دیے۔ صورتحال پر قابو پانے اور اسمبلی کے دروازے کھلوانے کے لیے انتظامیہ نے پولیس طلب کر لی۔ پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی جس کی بکتر بند گاڑی نے ٹکر مار کر اسمبلی کا دروازہ توڑ دیا۔ بکتر بند کی زد میں آکر اپوزیشن کے کچھ ارکان اسمبلی بھی زخمی ہوگئے۔
اس موقع پر اپوزیشن ارکان اور ان کے کارکنوں کی پولیس کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں کافی ہنگامہ آرائی ہوئی اور کشیدگی پھیل گئی۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔
قائد حزب اختلاف بلوچستان اسمبلی ملک سکندر کا کہنا تھا کہ آج ہم بلوچستان اسمبلی کے چوکیدار ہیں، کسی کو اسمبلی کے اندر جانے نہیں دیں گے اور حکومت بجٹ پیش کرکے دکھائے۔
بی این پی کے رکن احمد نواز اسمبلی میں داخل ہو رہے تھے تو پولیس کی جانب سے انہیں روکا گیا جس پر پولیس اور اپوزیشن اراکین میں تلخ کلامی اور دھکم پیل شروع ہو گئی۔ اپوزیشن اراکین نے پولیس کے رویے کے خلاف اسمبلی بلڈنگ کے انٹری پوائنٹ پر بیٹھ کر احتجاج کیا۔
بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن جماعتیں بجٹ میں ان کے حلقوں کو نظر انداز کرنے پر سراپا احتجاج ہیں۔ متحدہ اپوزیشن کا بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاجی کیمپ گزشتہ چار روز سے جاری ہے۔
خیال رہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی اپیل پر مظاہرین نے قومی شاہراہیں بھی بلاک کر دی ہیں جس سے نظام زندگی درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں بی این پی (مینگل)، پشتونخواہ میپ اور جمعیت علمائے اسلام نے اپنے حلقوں کو نظر انداز کرنے کے خلاف احتجاج جاری رکھا ہوا ہے۔
متحدہ اپوزیشن کی کال پر کوئٹہ سے دیگر صوبوں کو جانیوالی قومی شاہراہون کو بلاک کر دیا گیا۔ کوئٹہ سے چمن، پنجاب اور خیبر پختونخوا کو ملانے والی شاہراہ کو کچلاک کے مقام سے بند کیا گیا ہے۔ کوئٹہ سے تفتان اور کوئٹہ سے کراچی جانیوالی آر سی ڈی شاہراہ کو میاں غنڈی کے مقام سے بلاک کیا گیا ہے۔
شاہراہوں کی بندش سے دونوں اطراف گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی ہیں۔ دونوں جانب سفر کرنے والے مسافروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ متحدہ اپوزیشن کا موقف ہے کہ گزشتہ سالوں کی طرح اس بجٹ میں بھی اپوزیشن رہنماؤں کے حلقوں کو نظر انداز کر دیا گیا اور مطالبات پورے ہونے تک احتجاج جاری رہے گا۔