اسلام آباد: وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے کہا ہے کہ بجٹ میں جو اہداف رکھے گئے ہیں وہ آسان نہیں اور اہداف کیلئے واضح پلان اور ٹیم ورک کی ضرورت ہے۔
نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ یہ بھی سوال ہے کیا حکومت ضروری قانون سازی کا اختیار رکھتی ہے۔ تمام سٹیک ہولڈرز اور نجی شعبے کو شراکت دار بنانا اور مشکل فیصلوں کیلئے رائے دہندگان کو قائل کرنا ضروری ہوگا۔
اسد عمر نے کہا کہ 2013ء سے 2018ء تک کسی زون پر ڈیویلپمنٹ کا کام نہیں کیا گیا۔ سپیشل اکنامک زونز کی ڈیویلپمنٹ ہماری حکومت میں ہوئی۔ فیصل آباد زون کا افتتاح کیا، رشکئی میں پہلی سرمایہ کاری آ گئی جبکہ دھابیجی میں سندھ حکومت کا مسئلہ ہوا اور جلد بڈنگ آ جائے گی۔
انہوں نے بتایا کہ زراعت کے شعبے میں چینی کمپنیاں یہاں کام شروع کر رہی ہیں اور زراعت میں جلد اور ٹھوس سرمایہ کاری کے اعلانات ہونے والے ہیں لیکن ہم چاہتے ہیں چینی انویسٹر کیلئے سرمایہ کاری کی پہلی منزل پاکستان ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ آئندہ سال پی ایس ڈی پی میں 40 فیصد اضافے سے 900 ارب روپے رکھا گیا۔ وزیراعظم سے کہا ہے کہ 30 جون سے پہلے پروپوزل لے کر آؤں گا۔ دیکھنا ہوگا ریڈ ٹیپ کے خاتمے کیلئے فیصلہ سازی میں تبدیلی ضروری ہے اور 900 ارب سال میں خرچ کرنے ہیں تو رکاوٹیں ختم کرنا ضروری ہے۔
ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیکنالوجی کے استعمال کیلئے سپارکو کے ساتھ معاہدہ کیا ہے۔ سپارکو سیٹلائٹ تصاویر دیتا ہے اور 4 دن بعد اپ ڈیٹ مل جاتی ہے۔ اس سے پتا چلے گا کہ پیسہ لگ رہا ہے یا سوئس اکاؤنٹ میں جا رہا ہے۔
عالمی وبا سے بچاؤ کے حفاظتی ٹیکوں کی کمی پر بات کرتے ہوئے اسد عمر کا کہنا تھا کہ ویکسین کی کمی کی وجہ بڑی تعداد میں ویکسی نیشن ہونا تھی۔ رواں ہفتے کے پہلے 2 دن یومیہ 4 لاکھ افراد کی ویکسی نیشن ہوئی اور آئندہ ہفتے سے ویکسین مہم کی رفتار مزید تیز کرنے جا رہے ہیں۔