اسلام آباد : ایم کیو ایم رہنما ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس میں گرفتار ہونے والے تینوں ملزمان کو عمر قید کی سزا سنا تے ہوئے ورثا کو 10،10 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیدیا۔
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے ڈاکٹر عمران فاروق کیس کا مختصر فیصلہ سنایا۔ ملزمان کی ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری لگائی گئی اور جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ آپ تینوں کے خلاف استغاثہ کیس ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔ عدالت نے ڈاکٹر عمران فاروق کے ورثا کو 10،10 لاکھ روپے معاوضہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے عمران فاروق قتل کیس میں بانی ایم کیو ایم اور افتخار حسین کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
عدالت نے کیس میں اشتہاری ملزمان محمد انور اور کاشف کامران کے بھی دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے 21 مئی کو ڈاکٹر عمران فاروق قتل کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
یاد رہے ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو برطانیہ میں قتل کیا گیا تھا۔ اس کیس میں برطانیہ نے بھی شواہد فراہم کیے اور وڈیو لنک پر مقتول کی اہلیہ سمیت برطانوی گواہوں کے بیانات بھی ریکارڈ کیے گئے۔ کیس کے برطانوی چیف انوسٹی گیٹر نے بھی اس کیس میں بیان ریکارڈ کرایا۔ برطانیہ نے پاکستانی حکومت کو جرم ثابت ہونے کے باوجود ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی پر شواہد فراہم کیے اور کیس میں تعاون کیا تھا۔
ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ ڈاکٹرعمران فاروق کے قتل کے بعد کراچی میں سڑکوں پر ہنگامہ آرائی کی گئی تھی اور دکانوں و گاڑیوں کو نذر آتش کردیا گیا تھا۔
وقوعہ لندن میں ہونے کے باوجود 2015 میں اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہدایت پر ایف آئی اے نے عمران فاروق کے قتل میں ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا۔
کاشف خان کامران، محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو مرکزی ملزم قرار دیا گیا تھا۔ 2015 میں ہی محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو گرفتار کیا گیا تھا جب کہ کاشف خان کامران تاحال مفرور ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کی موت ہوچکی ہے۔