اسلام آباد: چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ آج فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف کیس کی سماعت کرے گا۔ لارجر بنچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک شامل ہیں۔
وفاقی حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان اپنے دلائل دیں گے۔ اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت میں فوجی حراست میں موجود 102 افراد کے ناموں کی تفصیلات عدالت میں جمع کروائی تھیں۔
گزشتہ سماعت پر عدالت عظمیٰ نے گرفتار افراد کا اہلخانہ سے ٹیلیفون پر رابطہ کروانے کی ہدایت کی تھی۔
27 جون کو ہونے والی سماعت کے موقع پر بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے لیے فل کورٹ بنانے کی تجویز دی تھی۔ سپریم کورٹ نے گزشتہ سماعت کے موقع پر درخواست گزاروں کی جانب سے فوجی عدالتوں میں ٹرائل روکنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کیس کی کاروائی جولائی کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کی تھی۔
کیس میں اب تک تمام درخواست گزاروں کے وکلا کے دلائل مکمل ہو چکے ہیں، وفاقی حکومت کے وکیل اٹارنی جنرل، وزیراعظم، وزیر دفاع اور وزیر داخلہ کے وکلا سماعت پر دلائل دیں گے۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس پر فیصلے تک آرٹیکل 184 کی شق 3 کے تحت مقدمات سننے سے معذرت کی تھی اور جسٹس سردار طارق مسعود نے بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اس مؤقف کی تائید کی تھی۔ جسٹس منصور علی شاہ وفاقی حکومت کے اعتراض کے بعد بینچ سے الگ ہو گئے تھے۔
یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ، سینیئر وکیل اعتزاز احسن، سول سوسائٹی کے ارکان اور چیئرمین تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔ درخواست گزاروں نے عدالت عظمیٰ سے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کو غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کر رکھی ہے۔
یاد رہے کہ سیکرٹ ایکٹ کے تحت تمام اقدامات قانون کے مطابق درست ہیں، اس حوالے سے صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کی درخواست قابل سماعت قرار دی گئی ہے۔