مبشر لقمان نے بڑے پتے کی بات کہی، پاکستانی معیشت کی ترقی کا دارومدار اور مستقبل آئی ٹی اور ایگروبیسڈ اکانومی کے ساتھ جڑا ہوا ہے،اس سلسلے میں انہوں نے پوری دنیا او ر وہاں آئی ٹی اور زراعت کی ترقی کے حوالے سے اعداد و شمار بھی بتائے جو واقعی ہماری آنکھیں کھولنے والے ہیں ۔نیشنل پبلک فورم کا اجلاس تھا وہ اپنے خوبصورت اور سر سبز فارم ہاؤس پر اس کی میز بانی کر رہے تھے ، برادر بزرگ معروف صحافی مجیب الرحمٰن شامی صاحب سے لے کر مشہور اور کامیاب سیاستدان میاں منظور وٹو ، دانشور اور بڑے بھائی حفیظ اللہ نیازی ،امجد وڑائچ،میرے دو پیارے دوست ،پاکستان کے گروپ ایگزیکٹو ایڈیٹر محمد نوشاد علی اور نئی بات کے ایگزیکٹو ایڈیٹر ہمایوں سلیم کے ساتھ ساتھ ، صحافیوں ، بیوروکریٹس، سیاستدانوں ، نوجوانوں کی ایک کہکشاں سجی ہوئی تھی ،لش گرین،مخملی کورین گھاس ،ٹھنڈی ہوا ،خوبصورت ماحول میں سیاسی غیر سیاسی ،اسٹیبلشمنٹ ،ریاست اور ہر موضوع پر گفتگو۔مبشر لقمان نے پچھلے دنوں ملکی سلامتی کے ایک ادارے کے سربراہ سے اپنی ملاقات کی تفصیلات بھی شئیر کیں جن سے موجودہ ملکی سیاسی ،خارجہ اور سلامتی کے امور کو سمجھنے میں کافی راہنمائی ملی،انہوں نے یہ نوید بھی سنائی کہ ٹاپ لیول پر یہ سوچ بھی پائی جا رہی ہے کہ دوست ممالک کے ساتھ مل کر ملک میں یوریا اور دوسری کھادوں کے نئے پلانٹ فوری طور لگائے جائیں تاکہ ملک میں کھادوں کی کمی دور ہو سکے اور زراعت پھلے پھولے۔
صحافت کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی ،زرعی اور لائیو سٹاک فارمنگ کا مجھے بھی جنون ہے، دونوں آسان نہیں ،ان کے لئے عملی طور پر میدان میں اترنا پڑتا ہے اور ان دنوں تو یہ جان جوکھوں کے کام ہیں، آج بات زراعت اور فارمنگ کی ہی کرتے ہیں۔ میاں منظور وٹو ، امجد وڑائچ ، ڈاکٹر امان اللہ ملک اور سابق ایم ڈی یوٹیلیٹی کارپوریشن عارف خان نے بھی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں زراعت اور زرعی اجناس کی اہمیت بارے بات کی۔میرے خیال میں پاکستان میں تو اسے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے،40کی دہائی میں زراعت ملکی جی ڈی پی کا53فیصد تھی جبکہ65فیصد سے زائد آبادی اس شعبے سے منسلک تھی،گزشتہ سات عشروں سے آنیوالی سیاسی سماجی ،موسمیاتی، ماحولیاتی اور بعد ازاں حکومتی تبدیلیوں نے بھی ان اعدادو شمار پر اثر ڈالا ہے ،موجودہ مخلوط حکومت نے کسانوں کے ٹیوب ویل بجلی سے سولر پر شفٹ کرنے کا منصوبے کا اعلان کیا ہے یہ ایک گیم چینجر ہو سکتا ہے، پیپلز پارٹی کی ایک پہچان کسان فرینڈلی بھی ہے ،اسی طرح پرویز الہٰی اور پی ٹی آئی کا دور حکومت بھی کسان دوست رہا ،ان ادوار میں زرعی اجناس کی قیمتیں مناسب ملیں ،خصوصی طور پر گنے کے کاشتکار کے ساتھ انصاف ہوا ،ورنہ شوگر ملز مافیا ہمیشہ ان کا استحصال کرتا رہا،ہمارے پنجاب کے ایک صوبائی افسر زمان وٹو نے کین کمشنر پنجاب کی حیثیت سے بڑی نیک نامی پائی اور گنے کے کاشت کاروں کی دعائیں سمیٹیں ، زمان وٹو نے پچھلی حکومت میں کاشتکاروں کو کئی کئی سالوں کے واجبات دلائے جو شوگر ملز دبائے بیٹھی تھیں یہ الگ بات کہ شوگر مافیا کا اب پھر داؤ لگ گیا ہے اور انہیں اس جرم پر ا وایس ڈی بنوا دیا ہے۔
جہاں تک پیپلز پارٹی کے کسان دوست ہونے کا ثبوت ہے تو پیپلز پارٹی کے رہنماوفاقی وزیر خورشید شاہ نے بڑی کمال بات کی ہے، ان کا کہنا ہے کہ اگر دس سال تک ساری توجہ زراعت کی ترقی پر دے دی جائے تو ملک کو قرضوں کی ضرورت ہی نہیں رہے گی بلکہ پرانے قرضے اتارنا ممکن ہو جائے گا،صنعت بھی ترقی پذیر ہو جائے گی،بات درست ہے مگر اس کیلئے اہم ترین بات سیاستدانوں کا اتفاق رائے ہونا ہے،وافر مقدار میں دریائی پانی سمندر برد ہوتا ہے مگر سندھی سیاستدان اس کوزرعی مقصد کیلئے بروئے کار لانے میں رکاوٹ ہیں،کالا باغ، ڈیم کی تعمیر کیلئے قدرتی موزوں اور مناسب مقام ہے مگر کے پی کے سیاستدان اس کے خلاف ہیں،جنوبی پنجاب کی اراضی قابل کاشت بنانے کیلئے وسطی اور شمالی پنجاب کے کسان اہم رول ادا کر سکتے ہیں مگر جنوبی پنجاب والے اسے استحصال گردانتے ہیں،اب تو یہ سارے عناصر مخلوط حکومت میں ہیں تو کیوں ان اہم قومی معاملات کو زیر بحث لا کر اختلافات کو دور کر کے قومی نوعیت کے اہم منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکتا؟
غور کریں زراعت ملکی آبادی میں اضافہ کی وجہ سے ترقی کی طرف جانا چاہئے تھی مگر اس کے برعکس دیہی آبادی کا تیزی سے شہری علاقوں میں بہاؤ کے باعث یہ شعبہ تنزلی کا شکار ہے،اس وقت جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ صرف22,4فیصد ہے،جبکہ زراعت سے وابستہ افراد کی تعداد کم ہو کر 35,9فیصد رہ گئی ہے،ملک کی63,09فیصد آبادی دیہات میں مقیم ہے اور 60فیصد سے زیادہ آبادی بلا واسطہ یا بالواسطہ طور پر زراعت سے وابستہ ہے،انتہائی قابل افسوس بات یہ کہ ہم 79.6 ملین ہیکٹرز رقبہ میں سے زراعت کیلئے محض 22.1 ملین ہیکٹرز رقبہ کو قابل کاشت بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں،اسی وجہ سے ملک کی ایک تہائی آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے،ہماری 49فیصد آبادی کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے یا وہ غیر معیاری خوراک کے استعمال پر مجبور ہے،ایک تخمینہ کے مطابق2050تک ملک میں گندم کی پیداوار میں 50فیصد تک کمی کا خدشہ ہے،موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے آم کی پیداوار پہلے ہی متاثر ہے،سیاسی مداخلت کے باعث کپاس کی پیداوار بھی تشویشناک حد تک کم ہو چکی ہے،اس کے باوجود ابھی بھی ہم دنیا میں بڑی فصلیں کاشت کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہیں،2015میں زرعی پیداوار کا سلسلہ عروج کو پہنچا مگر2019/20میں کرونا کے باوجود گندم کی پیداوار اور پیداواری رقبہ میں اضافہ خوش آئند تھا۔
گندم کے بعد چاول کھانے،برآمد کرنے اور نقد فروخت کیلئے اہم فصل ہے،کافی عرصہ بعد 2020میں چاول کی پیداوار اور کاشت کے رقبہ میں اضافہ نوٹ کیا گیا،اس عرصہ میں کپاس کے قابل کاشت رقبہ میں اضافہ کے باوجود کمی رہی،گنا بھی ملک کی اہم فصل ہے مگر شوگر مافیا کی اجارہ داری کے باعث بحرانی اور ہیجانی کیفیت نے جنم لیا اور پیداوار بھی کم ہوئی اور قابل کاشت رقبہ بھی،دیگر فصلوں میں مکئی،چنا،باجرہ،تمباکو بھی اہم ہیں مگر ان میں سے ہر فصل پر کسی نہ کسی مافیا نے دانت گاڑ رکھے ہیں جس کی وجہ سے کسان محرومی کا شکار ہے،پولٹری،لائیو سٹاک،ماہی پروری،جنگلات کو بھی زراعت کا حصہ سمجھا جاتا ہے مگر ان میں سے صرف پولٹری کی صنعت فروغ پا رہی ہے،ایک نظر زراعت کی اہمیت پر بھی ڈال لیتے ہیں،قدرتی وسائل سے مالا مال ملک خداداد میں سر سبز جنگلات،معدنی پہاڑ،آبی وسائلاور زراعت معیشت کا اہم حصہ ہیں،دیکھا جائے تو یہ سب شعبے باہم دگر ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور ان میں زراعت کی اہمیت دو چند ہے،ملکی معیشت کو سنوانے کیلئے زراعت کے شعبہ کو ترقی دینا نا گزیر ہے،اس شعبہ کی ترقی سے ہی عوامی خوشحالی بھی ممکن ہے،ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر سال فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کا ہدف مقرر کیا جائے،بیکار پڑی زمینوں کو آباد کرنے کیلئے بھی بجٹ میں فنڈز مختص کئے جائیں اور جیسے انگریز دور میں اور ایوبی دور میں بنجر زمینوں کی آباد کاری کیلئے سکیمیں اناؤنس کی جاتی تھیں ایسے ہی منصوبوں کا اعلان کیا جائے۔نیشنل پبلک فورم میں لاہور پریس کلب کے سابق صدر ،معروف صحافی ناصر نقوی،خالد محمود خالد،نوراللہ صدیقی،سابق جج رانا ارشد ،سابق ایڈیشنل آئی جی شاہد حنیف ، بیوروکریٹ خالد عربی اور سابق سیکرٹری پنجاب حکومت نوابزادہ مظہر علی خان نے بھی زراعت کی ترقی کے حوالے سے تجاویز دیں۔