پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل کے اضافی نوٹ نے ملک میں نئی آئینی و قانونی بحث کا آغاز کر دیا ہے کہ کیا حکومت اضافی نوٹ کی بنیاد پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا آغاز کرسکتی ہے اوراضافی نوٹ پر عملدرآمد کی قانونی حیثیت کیا ہوتی ہے۔86 صفحات پر مشتمل تفضیلی فیصلے میں کہا گیا کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرکے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے بادی النظر اپنی آئینی ذمہ داری کی خلاف ورزی کی ہے۔یہ تفصیلی فیصلہ پاکستان کے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے تحریر کیاجبکہ جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اضافی نوٹ لکھا جس میں ان کا کہنا ہے کہ سپیکر، ڈپٹی سپیکر، صدر اور وزیراعظم نے 3 اپریل کو آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی کی۔سپیکر، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے صدراور وزیراعظم کی اسمبلیاں تحلیل کرنے تک کی کارروائی عدم اعتماد ناکام کرنے کیلئے تھی۔اسمبلیاں تحلیل کی کارروائی سے عوام کی نمائندگی کا حق متاثر ہوا، آرٹیکل پانچ کے تحت آئین پاکستان کی خلاف ورزی پر آرٹیکل چھ کی کارروائی کا راستہ موجود ہے۔ آئین کا آرٹیکل 5 آئین سے وفاداری کا کہتا ہے لیکن اسے آئین کی خلاف ورزی کے طور پر استعمال کیا گیا۔ آیاان اقدامات پر آئین کا آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے؟ پارلیمنٹ اس کا فیصلہ کرے کہ آرٹیکل 6 کی کارروائی پر عمل کروا کر مستقبل میں ایسی صورتحال کے لیے دروازہ کھلا چھوڑنا ہے یا بند کرنا ہے۔اسی اضافی نوٹ کے تناظر میں رانا ثنا اللہ نے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے تفصیلی فیصلہ میں واضح کیا کہ اس پورے کیس کے دوران بینچ کے سامنے خفیہ سائفر کا مکمل متن پیش نہیں کیا گیا اور نہ ہی تحریک انصاف بیرونی سازش کے شواہد دے سکی۔جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان کاکہنا ہے کہ صدر نے خط لکھا تھاکہ کمیشن بناؤاور اس کی تحقیقات کرو، لیکن سپریم کورٹ سے بھی کوئی تحقیقات نہیں ہوئی، سب کے سامنے کہتا ہوں کہ مجھ پر آرٹیکل 6 لگاؤ۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلے دیتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کرنے کے اقدام کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کرنے اورعدم اعتماد کی تحریک پرووٹنگ کیلیے قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو طلب کرنے کا مختصر فیصلہ سْنایا تھا جس کی وجوہات تفصیلی فیصلے میں بیان کی گئی ہیں۔لہٰذا فیصلہ صرف وہ ہی تصور ہو گا جو 7اپریل کو دیا گیا تھا۔کسی بھی مقدمے کے فیصلے میں جج کے اضافی نوٹ کی قانونی حیثیت ایک رائے سے بڑھ کہ نہیں ہوتی ہے۔ اس مقدمے میں جسٹس مظہر عالم کی جانب سے دیے گئے اضافی نوٹ کی بھی قانونی وآئینی حیثیت محض ان کی رائے ہے کیونکہ یہ اصل آرڈر کا حصہ نہیں ہے اور عدالتی فیصلے کی وجوہات میں اضافہ ہے، کسی عدالتی فیصلے میں کوئی جج اپنے اضافی نوٹ میں آئین اور حقائق کے مطابق جو بھی لکھتے ہیں تو یقیناً اس کی قانونی حیثیت ایک رائے سے بڑھ کہ نہیں ہوتی ہے اور اس پر سب کو عمل کرنا ضروری نہ ہے۔اگرچہ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت اور پاکستان کی پارلیمان پر چھوڑا ہے کہ آئین کے خلاف ورزی کے راستے کو کْھلا رکھے یااس کا سدباب کرے۔ لیکن اگرآئین کے خلاف ورزی کے اس معاملے میں آرٹیکل 6 کی رو سے کوئی ریفرنس بنتا ہے یا سپیکر قومی اسمبلی اس فیصلے کے تحت افراد کے خلاف نااہلی کاریفرنس الیکشن کمیشن کو بھیجے اورالیکشن کمیشن ان کوڈی سیٹ کرے یانااہل قرار دے تو یہ ساری کارروائی نہ صرف چیلنج ہوگی بلکہ مسترد کیے جانے کے روشن امکانات ہیں، کیونکہ آئین کی خلاف ورزی پر آرٹیکل چھ لاگونہیں ہوتا۔آئین کا آرٹیکل 6 سنگین غداری کے زمرے میں آتاہے اوریہ معاملہ عین اس کے مطابق نہ ہے۔آرٹیکل 6 کے مطابق کوئی بھی شخص جو طاقت کے استعمال یاطاقت سے یادیگر غیرآئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ کرے، تخریب کرے یا معطل کرے یا التواء میں رکھے یا اقدام کرے یا تنسیخ کرنے کی سازش کرے یا تخریب کرے یامعطل یا التواء میں رکھے سنگین غداری کامجرم ہوگا۔معزز جج نے اپنے اضافی نوٹ میں آئین کی خلاف ورزی کی بات کی ہے۔جو یقیناً دستور کی تنسیخ، تخریب، معطلی یا التواء نہ ہے۔ آئین کی خلاف ورزی تو یہ بھی ہے کہ اگر کوئی بھی سرکاری ملازم، اپنے فرائض سے غفلت برتتا ہے،یاکوتاہی کرتا ہے اور اس سے شہریوں کے بنیادی حقوق سلب ہوتے ہیں تو یہ بھی غیر آئینی اقدام ہے، یوں تو سب پر سنگین غداری لگ جائے گی۔ آرٹیکل 6 کی تعریف کے تحت غیر آئینی اقدام اور آئین کی خلاف ورزی کرنا اور آئین کو معطل کر دینے میں بڑا فرق ہے۔ موجود حکومت کبھی بھی آرٹیکل 6 کی کارروائی نہیں کرے گی اور وہ صرف سیاست کر رہی ہے۔ کیونکہ وفاقی حکومت جانتی ہے کہ سپریم کورٹ نے ایسا کچھ نہیں کہا اور وہ اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کر سکتے۔دوسری طرف پی ٹی آئی قیادت بھی دوبارہ حکومت میں آنے پراس فیصلے کو پارلیمان میں لے جا کر ختم کروانے اورپارلیمان سے آرٹیکل 69 کی خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 لگانے کے سیاسی بیانات دے رہے ہیں۔
سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے میں متنازع غیر ملکی مراسلے پر بھی مفصل انداز میں بات کی گئی ہے کہ اس وقت کی حکومت نے کارروائی کے دوران اس سائفر کا مکمل متن کورٹ کو نہیں دکھایا۔سائفر 7 مارچ کو موصول ہونے کے باوجود حکومت نے اس معاملے پرکوئی تفتیش نہیں کروائی اور نہ ہی 28 مارچ اور 31 مارچ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں اس کے متن کا کوئی حوالہ دیا گیا۔ عدالتی فیصلے میں اہم نکتے کے مطابق ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں معاملے کی انکوائری کی تجویز ثابت کرتی ہے کہ ان کو بیرونی سازش سے متعلق جو مواد دیا گیا وہ یا تو نا مکمل تھا، یا پھر سازش کو ثابت کرنے کیلئے ناکافی تھے۔ 3 اپریل کو ڈپٹی سپیکر کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ تحریک عدم اعتماد سے جڑے مراسلے کے متن اور اثرات پر قومی اسبلی میں بحث کروائیں لیکن انہوں نے قومی اسمبلی کے کسی بھی رکن کو سنے بغیر، اور عدم اعتماد پر ووٹنگ کروائے بنا ہی وفاقی وزیر کے الزامات پر مشتمل بیان کی بنیاد پر اسے مسترد کر دیا۔ایسا کرتے ہوئے نہ صرف ڈپٹی سپیکر نے آئین کے آرٹیکل 95 کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا بلکہ آرٹیکل5 پر بھی رولنگ دے دی جو ان کے اختیار اور دائرہ کار سے باہر تھا۔یہ بات اہم ہے کہ جس وقت ڈپٹی سپیکر نے رولنگ دی، اس وقت تک انہوں نے سائفر کا متن نہیں پڑھا تھا کیوں کہ یہ کوڈڈ تھا اور 3 اپریل کو ڈپٹی سپیکر کی جانب سے دی گئی رولنگ غیر قانونی تھی۔ ڈپٹی سپیکر کو یا تو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانی چاہیے تھی یا پھر وزیر قانون کی جانب سے اٹھائے گئے نکتے پر بحث کروانی چاہیے تھی اور پھر ووٹ کی جانب بڑھنا چاہیے تھا لیکن انہوں نے ان میں سے کوئی قدم نہیں اٹھایا اور تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔سپیکر کے پاس آئین کی تشریح کرتے ہوئے ایسی کوئی رولنگ دینے کا اختیار نہیں جس کا قومی اسمبلی کے بزنس سے تعلق نہ ہو۔آئین کا آرٹیکل 69 قومی اسمبلی کے اندورنی معاملات پر عدالتی دائرہ کار مکمل طور پر ختم نہیں کرتا۔ جسٹس مظہرعالم خان میاں خیل نے درست لکھا کہ اس بات کا فیصلہ پارلیمنٹیرینز کو کرنا ہے کہ مستقبل میں سپیکر کے معزز عہدے پر بیٹھے کسی شخص کی جانب سے ایسے کسی جانبدارانہ قدم کو کیسے روکا جائے۔ یقینًاقومی اسمبلی میں آئین کی خلاف ورزی کے نتائج ہونے چاہئیں اور قانون کو اپنا راستہ لینا چاہیے لیکن یقینًا آئین کی خلاف ورزی پر آئین کے آرٹیکل6 کا اطلاق نہیں ہوتا ہے بلکہ آرٹیکل 6 کا اطلاق غیرآئینی ذریعے سے دستور کی تنسیخ، تخریب، معطل یا التواء میں رکھنے کی سنگین غداری کی ہی صورت میں ہوگا۔