کوئی مہنگائی سی مہنگائی، سٹاک مارکیٹ کو مسلسل مندی کا سامنا، اور پھر ڈالر اور سونے کی اونچی سے اونچی اڑان۔ یعنی وطنِ عزیز کے حالات اس قدر دگرگوں کہ مایوسی کے کچھ بچتا نظر نہیں آ رہا۔ ایسے میں اچانک، جی ہاں اچانک ہی کہیں گے کہ ڈیزل کی مد میں 40 روپے 54 پیسے جب کہ پٹرول کی مد میں 18 روپے پچاس پیسے کی کمی کی گئی ہے، مٹی کے تیل کی قیمت میں 33 روپے 81 پیسے جب کہ لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 34 روپے 71 پیسے کمی کر دی گئی ہے۔ بلاشبہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی حکومت کا خوش آئند اقدام ہے اور اس کا فائدہ براہ راست عوام کو منتقل ہونا چاہیے، دوسری جانب آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا ہے بلاشبہ ملکی معیشت کے حوالے سے یہ خبریں تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوں گی۔ اس بات کے سو فی صد امکانات بھی روشن ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پانے کے بعد دوست ممالک بھی ہمیں مزید قرض دیں گے، جس سے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھیں گے اور ملک میں جاری معاشی بحران پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ دوسری جانب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں صرف کمی کا اعلان کافی نہیں بلکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کمی کے لیے حکومت کو اقدامات اٹھانا ہوں گے، کیونکہ پاکستان کے عوام براہ راست مہنگائی سے متاثر ہو رہے ہیں اور ٹیکسز کے بوجھ تلے دب رہے ہیں، ہمارے ملک میں یہ روایت برقرار ہے کہ اشیاء کی قیمتیں جب ایک بار بڑھ جاتی ہیں تو پھر ان میں کمی نہیں کی جاتی ہے، اسی طرح ملک میں موجود لاکھوں مزدوروں اور متوسط طبقے کے نوکری پیشہ افراد پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں اضافے سے مالی مشکلات کا شکار ہو چکے ہیں، ڈیزل کی قیمتوں میں چالیس روپے کا ریلیف پبلک ٹرانسپورٹ کی کرایوں میں کمی کرا کر حکومت براہ راست عوام کو فراہم کر سکتی ہے۔ اسی طرح ادویات پر ٹیکس کی مد میں حکومت نے ٹیکسز میں بہت زیادہ کمی کی ہے، لیکن تاحال ادویہ ساز کمپنیوں نے ادویات کی قیمتوں میں کمی نہیں ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جان بچانے والی ادویات بھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں، میں ان سطور کے ذریعے حکومت کی توجہ اس نہایت اہم مسئلے کی جانب مبذول کرانا ضر وری سمجھتا ہوں کہ حکومتی سطح پر ایسا مربوط اور فعال میکنزم بنایا جائے، جس سے عوام کو سستی ادویات مل سکیں، منافع خور، ذخیرہ اندوز عناصر کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔
تین ماہ کے مشکل ترین فیصلوں کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے بہترین فیصلے کرنا شروع کر دئیے ہیں۔ سب سے پہلا فیصلہ جو ملکی مفاد کے لیے انتہائی خوش آئند سمجھا جانا چاہیے جو نہیں سمجھا جا رہا وہ لگژری اشیاء کی درآمدات کو روکنا ہے مگر سابقہ حکومت کے پی ٹی آئی اراکین کہہ رہے ہیں کہ لگژری اشیاء کی درآمدات روکنے سے ملک کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ جب کہ حقیقت میں
جب لگژری اشیاء کی روک تھام ہو گی تو زرِ مبادلہ اور تجارتی خسارے پر قابو پانے کے حوالے سے اس کے اثرات مثبت ہوں گے اور اس سے بھی بڑے اثرات پاکستان کی مقامی صنعت پر نظرآئیں گے۔ دراصل کوئی بھی ملک ترقی اس وقت کرتا ہے جب اس کی گراس نیشنل پراڈکٹس (جی این پی) میں اضافہ ہوتا ہے۔ جب درآمدات روکی جاتی ہیں تو مقامی طور پر بنائی ہوئی اشیاء کی فروخت بڑھ جاتی ہے جس سے ملکی صنعت ترقی کرتی ہے اور پھر صنعتکار اپنی پیداوار میں اضافہ کرتے ہیں۔ کاروبار کو وسعت دی جاتی ہے۔ پیداوار بڑھانے اور کاروبار میں وسعت پیدا کرنے کے لیے صنعتکاروں کو افرادی قوت کی ضرورت پیش آتی ہے جس کے لیے افسران اور اہلکار رکھے جاتے ہیں جس سے روزگار بڑھتا ہے۔ فی الحقیقت دنیا میں تمام ایسے ممالک ترقی کرتے ہیں جن کی جی این پی میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر کے ماہر معاشیات یہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار جی ڈی پی سے بڑھ کر جی این پی پر ہوا کرتا ہے۔ گو اس وقت ڈالر کی قیمت 211 روپے سے تجاوز کر گئی ہے اور اس حوالے سے اپوزیشن حکومت پر شدید تنقید بھی کر رہی ہے لیکن اس کی وجہ عمران خان حکومت کی جانب سے متعارف کرائی گئی فری فلوٹ ایکسچینج کی قانون سازی ہے جس نے جوئے اور سٹے کی لت کو فروغ دیا، کیونکہ پاکستان میں فری فلوٹ ایکسچینج ڈالر کی قیمت میں کمی بیشی کا سبب بنتا ہے، اس پر حکومت کا کسی بھی قسم کا کنٹرول نہیں ہوتا۔ یہ ایک قسم کا جوا اور سٹہ بن چکا ہے۔ اسی جوئے کے باعث لوگوں نے 150روپے کا ڈالر خرید کر رکھ لیا اور پھر اس کی قیمت بڑھانے کے لیے معیشت کے خلاف افواہیں اور خبریں پھیلانا شروع کر دی گئیں۔ مثال کے طور پر سٹاک مارکیٹ تباہ ہو رہی ہے، ملک تباہی کے دہانے پر ہے، ملک دیوالیہ اور برباد ہو رہا ہے، ملک میں سری لنکا جیسے حالات پیدا ہونے جا رہے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کی جعلی، من گھڑت اور جھوٹی خبروں سے غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی اور سرمایہ کار گھبرا کر روپے کے بجائے ڈالر خریدنے لگے۔ ان کی سرمایہ کاری سے ڈالر کی مانگ میں اضافہ ہونے لگا۔ اس طرح روپے کی قدر میں کمی آنے لگی۔ پاکستان میں موجودہ سیاسی بحران نے ملک میں تلخی کا ماحول پیدا کیا ہوا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھنے کو تیار نہیں، جس سے تلخی اور بڑھ رہی ہے، اور سٹاک مارکیٹ آئے دن اوپر نیچے ہو رہی ہے، جس کا سارا اثر ملک کی معیشت اور ترقی پر پڑ رہا ہے۔ ملک مزید خسارے میں جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملک میں سیاسی بحران ہے۔ پاکستان میں بڑھتا سیاسی و معاشی بحران ہی ملک کو کمزور کر رہا ہے۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ معاشی بحران کو ختم کرنے کی کوشش جاری تھی جس کے لیے حکومت نے سخت فیصلے لینا شروع کر دیے۔ ابھی لوگ چیزوں کی درآمدات بند ہونے سے پریشان ہو ہی رہے تھے تو اگلا جھٹکا آئی ایم ایف نے لگا دیا۔ سال 2019 میں پی ٹی آئی کی حکومت نے معاشی مشکلات سے نکلنے کے لیے آئی ایم ایف سے رجوع کیا، یقین دلایا گیا کہ پیسے دے دیں وعدہ نبھائیں گے، پیسے ملے تو پی ٹی آئی حکومت نے آنکھیں پھیر لیں۔ پی ٹی آئی حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدے کے مطابق سیلز بڑھانے، پٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے، پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی اور سیلز ٹیکس لگانے کا وعدہ کیا گیا۔ معاہدے کے مطابق سابقہ حکومت کو پٹرول ڈیزل پر ماہانہ چار روپے فی لیٹر لیوی بڑھانا تھی۔ لیوی میں اضافہ اس وقت تک جاری رکھنا تھا جب تک لیوی تیس روپے نہ ہو جائے مگر ہوا یہ کہ حکومت نے آئی ایم ایف قسط ملتے ہی معاہدے کی خلاف ورزی شروع کر دی۔ جنوری کے بعد پٹرول اور ڈیزل پر لیوی میں اضافہ نہیں کیا گیا، بلکہ سیلز ٹیکس کی شرح بھی صفر کر دی گئی۔ پی ٹی آئی کے یہ اقدامات آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔ ردعمل میں آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ طے کردہ پیکیج منجمد کر دیا اور یہیں سے پاکستان کی مشکلات میں اضافہ ہوا۔ معاشی مشکلات کے باعث پاکستان کو فوری مالی امداد کی ضرورت پڑی۔ وزارت خزانہ کے مطابق ملک اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیرونی تجارتی خسارے، ملکی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر، تیزی سے کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔