آج ہماری سیاست اور اہل سیاست پر یہ جملہ بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ دروغ کو فروغ ہے۔ اور اگر اس کی جیتی جاگتی مثال دیکھنی ہے تو تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کی پوری جماعت کے بیانات اٹھا کر دیکھ لیں۔ اقتدار کی خاطر کوئی کس حد تک جا سکتا ہے۔ یہ صرف عمران خان کی سیاست کو دیکھ کر ہی سمجھا جا سکتاہے۔ جس طرح انہوں نے اپنے پارٹی لیڈروں، ورکروں اور ووٹروں کی تربیت کی ہے۔ جو زبان گلی محلوں، سوشل میڈیا اور جلسوں میں استعمال ہو رہی ہے۔ اس نے پوری سوسائٹی کی اخلاقیات کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ اگر بد زبانی کا کلچر یونہی جاری و ساری رہا تو یہ پوری سوسائٹی کو اژدہے کہ طرح نگل جائے گا۔ اس وقت سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے لیڈرز اور حامی جس طرح مخالف سیاسی رہنماؤں، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ سے متعلق جو کچھ بول اور لکھ رہے ہیں۔ دوبارہ لکھنا تو درکنار زبان سے بھی نہیں دہرایا جا سکتا۔ دو دن قبل سابقہ حکومت کے سابقہ وزیر اطلاعات موصوف نے اداروں کے خلاف جو زبان استعمال کی ہے۔ وہ یہاں دہراتے ہوئے بھی دس بار سوچنا پڑا ہے۔ فواد چودھری صاحب فرماتے ہیں کہ فوج کے منہ کو سیاسی فیصلوں کا لہو لگ چکا ہے۔ ججز بند کمروں میں فیصلے کرتے ہیں اگر جج آرٹیکل 6 کی خلاف ورزی کرے تو کیا اس کیخلاف کارروائی ہو گی۔ یہ ملک سری لنکا بننے جا رہا ہے۔ فواد چودھری کی ایسا کہتے ہوئے ایک مرتبہ بھی زبان نہیں کانپی۔ اپنے ملک اور اداروں کے متعلق اتنی بد خواہی؟ فواد چودھری کے اس بیان سے مجھے بڑی تکلیف ہوئی میں ساری رات نہیں سو سکا۔ اپنی فوج اور ملک کے خلاف ایسی زبان استعمال کرنے والوں کی زبان کھینچ لینی چاہئے۔ پاکستان کا ہر ذی شعور شہری یہ سمجھتا ہے کہ ملک کی سلامتی اداروں کی بقا میں پنہاں ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے مسلسل اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ادروں کو متنازع بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاس فواد چودھری کے اس بیان کا سرا پکڑنا ہے تو عمران خان کی تقریریں سن لیں جو مسلسل اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ صرف اس لیے کہ جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو اداررے واقعی نیوٹرل تھے۔ فوج اور عدلیہ نے پارلیمانی معاملات میں مداخلت کے بجائے سیاسی طاقتوں کو خود اپنا راستہ بنانے کا موقع دیا۔ عمران خان کو یہ غصہ ہے کہ جب پی ڈی ایم اتحاد کی جانب سے تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو فوج نے مداخلت کیوں نہیں کی۔ عمران خان کو بچانے کے لیے ٹیلیفون کیوں نہیں کیے۔ جو اتحادی عمران خان کو چھوڑ کر جا رہے تھے انھیں روکا کیوں نہیں۔ ایسی ہی
زبان سابق وزیر داخلہ شیخ رشید نے بھی مسلسل استعمال کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ضمنی الیکشن سے دور رہے اگر عمران خان کے ووٹر کا راستہ روکا گیا تو ایسی چنگاری بھڑکے گی جو سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ یہ وہی شیخ رشید ہیں جو 2014 کے دھرنے میں جمہوری اداروں کے خلاف جلا دو، گھیراؤ کر لو کے نعرے لگاتے تھے۔ اگر اس وقت ان کی زبان کھینچ لی جاتی تو آج یہ فوج کے خلاف ایسے بیانات نہ دیتے۔ عمران خان کو چھوڑنے والے اتحادیوں کا صرف ایک ہی شکوہ تھا کہ خان صاحب کا ان کے ساتھ سلوک اچھا نہیں تھا۔ وہ ان سے ملنا ہی گوارا نہیں کرتے تھے۔ اتحادی ہی نہیں عمران خان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی ان سے تنگ تھے۔ جو سلوک جہانگیر ترین اور علیم خان کے ساتھ ہوا وہ دیگر پارٹی رہنماؤں کے لیے باعث عبرت ہے۔ علیم و ترین کو اپنا وقت اور مال نچھاور کر کے پارٹی سے وفاداری کرنے کا صلہ نیب کے کیسز بنا کر دیا گیا۔ یہ کیسز تنہا علیم خان اور جہانگیر ترین کے خلاف نہیں بلکہ ان کے گھر کی خواتین کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ یہ احسان فراموشی نہیں تو کیا ہے؟جو شخص خود پر احسان کرنے والوں کا نہیں ہوا وہ عوام کا کیا ہو گا؟ عمران خان کے نزدیک صرف فرح گوگی، بشریٰ بی بی اور وہ خود ایماندار ہیں۔ اب سپریم کورٹ کے فیصلے نے صادق اور امین کا پردہ بھی چاک کر دیا ہے۔ اب یہ بات ایک کھلی کتاب کی مانند ہے۔ عمران خان کو اقتدار میں لانے والے اب پچھتا رہے ہیں کہ انھوں نے ایک غلط شخص کا چناؤ کیا۔ 2014 کے دھرنے سے لے کر 2018 کے انتخابات تک عمران خان کو ہر طرح کی سپورٹ فراہم کی گئی۔ اس کے باوجود بھی عمران خان سادہ اکثریت نہ حاصل کر سکے۔ ایم کیو ایم، باپ اور جی ڈی اے جوڑ کر بیساکھیوں پر بننے والی حکومت نے پونے چار برس میں ملک کو دیوالیہ ہونے کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ سیاسی طاقتوں نے بروقت فیصلہ کر لیا ورنہ آج پاکستان اور سری لنکا کے حالات میں کوئی فرق نہ ہوتا۔ عمران خان اور ان کے پارٹی لیڈرز آج بھی اس دبی خواہش کا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے کہ پاکستان کے حالات خدا نخواستہ سری لنکا جیسے ہونے جا رہے ہیں کہ یہ مشکل وقت لانے والی تحریک انصاف کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی۔ یاد رکھیں اب فوج فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ سیاسی فیصلے عوام اور سیاسی طاقتوں کو ہی کرنے دیں گے۔ ملک میں جس کی بھی حکومت بنے ادارے انہیں مکمل سپورٹ فراہم کریں گے۔ عمران خان نے نفرت کا جو بیانیہ تشکیل دیا ہے وہ صرف جھوٹ کی دکان پر ہی بک سکتا ہے۔ حکومت گرانے کا امریکی سازش کا جھوٹا بیانیہ اپنی موت آپ مر چکا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے نے اس پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں واضح لکھا ہے کہ 3 اپریل کی رات صدر، وزیر اعظم، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے آئین کے آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی کی۔ سپیکر، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ، وزیراعظم اور صدر کی اسمبلیاں تحلیل کرنے تک کی کارروائی تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے تھیں۔ آرٹیکل 5 کے تحت آئین پاکستان کی خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 کی کارروائی کا راستہ موجود ہے۔ اس پر فواد چودھری کا یہ کہنا کہ اگر آرٹیکل 6 لگا تو گلے زیادہ اور رسیاں کم پڑ جائیں گی، بادی النظر میں یہ توہین عدالت ہے۔ عمران خان عوامی اجتماعات میں عدلیہ اور خصوصاً افواج پاکستان کی قیادت کو جارحانہ تنقید کا نشانہ بنا کر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ عمران خان نے پہلے ہی کہا تھا وہ سڑکوں پر آ کر زیادہ خطرناک ہو جائیں گے۔ اہل نظر یہ خطرہ پہلے ہی بھانپ چکے تھے۔ سابق گورنر سندھ حکیم سعید نے اپنی کتاب میں صفحہ نمبر 273 پر انکشاف کیا تھا کہ ایک عالمی منصوبے کے تحت عمران خان کو پاکستان کی سیاست میں لانچ کیا جائے گا۔ آج یہ حقیقت سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کو کمزور کرنے کا سب سے آسان راستہ اداروں بالخصوص فوج کو کمزور کر دیا جائے۔ کیا جمہوریت کی بقا صرف فوج کو لتاڑنے کا نام ہے؟ جب بھی کوئی قدرتی آفت آتی ہے، سیلاب آئے یا زلزلہ افواج پاکستان سے مدد کیوں طلب کی جاتی ہے؟ اگر افواج پاکستان کا کام صرف دفاع کرنا ہے تو کورونا وبا میں فوج کی مدد کیوں لی گئی؟ المیہ یہ ہے کہ عمران خان صاحب اپنی ناکامی اور نااہلی کا ملبہ فوج پر ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ملک سے دہشت گردی اور تخریب کاری کو ختم کرنے کے لیے ہزاروں لازوال قربانیاں دینے والی فوج کو قوم کے سامنے مجرم بنا کر پیش کرنا ہی اصل بیرونی سازش ہے۔ عمران خان صاحب ہر معاملے میں عدلیہ اور فوج کو گھسیٹ رہے ہیں۔ ایک عام پاکستانی جو ادارہ جاتی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتا اس کے سامنے جذباتی اور غیر حقیقی بیانیے بنا کر فوج کو ہر مسئلے کی جڑ قرار دینا۔ یہ کیسی قومی خدمت ہے جو خان صاحب کر رہے ہیں؟ یہی دراصل ہمارے دشمن کا ایجنڈا ہے کہ عوام کے دلوں سے فوج کی محبت کم کر دی جائے۔ اب پاکستان کے عوام کو یہ سمجھنا ہو گا کے وہ ایسے ابن الوقتوں کے بہکاوے میں نہ آئیں جو اپنے اقتدار کی خاطر ہر حد سے گزر جائیں۔ اگر ہم اپنے وطن کے دفاع کو مضبوط دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں اپنی فوج کو عزت دینا ہو گی۔ بے لگام سیاست کی بے لگام زبانیں صرف عوام ہی روک سکتے ہیں۔