عید قربان کو تین روز باقی رہ گئے ہیں …… پچھلی کئی دہائیوں سے یوں ہوتا تھا ذوالحج کا چاند نظر آتے ہی گلی محلوں سے بکروں چھتروں اور دنبوں کی آوازیں آنا شروع ہو جاتی تھیں …… جوں جوں عید کا دن قریب آتا تھا رونق بڑھتی چلی جاتی تھی…… قربانی ہر صاحب استطاعت پر واجب ہے…… گزرتے سالوں میں جانوروں کی خریداری کے جوش وخروش سے معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے معاشرے میں صاحب استطاعت لوگوں کی اچھی خاصی تعداد پائی جاتی ہے…… کوئی گلی محلہ ایسا نہیں ہوتا تھا جہاں ہر دوسرے گھر کی ڈیوڑھی میں چھوٹا بڑا بکرا یا چھترا بندھا نہیں ہوتا تھا مگر اب کیفیت یہ ہے نچلے متوسط طبقے کے لوگ گائے کی قربانی میں حصہ ڈال لیں تو ڈال لیں مگر بکرا خرید کر گھر لانا ان کی استطاعت سے باہر ہو چکا ہے…… لاہور کی جس قدیم آبادی اچھرہ کا میں رہائشی ہوں وہ اب روزمرہ کی اشیاء سے لے کر قیمتی کپڑوں اور انواع و اقسام کے تیار شدہ ملبوسات سے لے کر گھریلو خواتین کی دلچسپی اور پسند کی متنوع اشیاء کی خریداری کے لیے اتنے بڑے شہر کیا پورے پنجاب کی بہت بڑی مارکیٹ بن چکا ہے…… عیدین اور دوسرے تہواروں کے موقع پر اس کے تنگ بازاروں میں (جو کبھی رہائشی گلیاں ہوتی تھیں) خریداروں کا اژدہام ہوتا ہے…… شام کے وقت کھوے سے کھوا چھلتا ہے…… گاڑیاں پارک کرنے کی جگہ نہیں ملتی اور رکشا ہر قسم کی پابندیوں کو توڑتے اور شور مچاتے ہوئے خریداروں کے بیچ سے نکل جانے کی اس طرح دھکم پیل کرتے ہیں کہ کان پھٹ جاتے ہیں اور پیدل خریداروں کے لیے جن میں زیادہ تر خواتین اور ان کے ہمراہ بچے ہوتے ہیں وہاں سے نکلنا مشکل ہو جاتا ہے…… لیکن کبھی یعنی پچاس اور ساٹھ کی دہائیوں بلکہ ستر کے وسط تک اچھرہ لاہور کی مشہور نہر کے کنارے شہر کی گاؤں نما مشہور اور پرانی بستی ہوتی تھی…… اس کے تین اطراف میں لہلہاتے کھیت ہوتے تھے…… ہر ڈیڑھ میل کے فاصلے پر پرانی وضع کا رہٹ جسے روایتی طریقے سے بیل چلاتے تھے ان کھیتوں کو سیراب کرتا تھا…… فطری ماحول تھا…… وضع دار لوگ تھے جو ایک دوسرے کی کئی نسلوں سے پہچان رکھتے تھے…… قیام پاکستان کے بعد البتہ اس گاؤں نما شہری بستی میں بڑی تبدیلی آئی…… فیروزپور روڈ کے کنارے آباد ہونے کی وجہ سے یہاں آمدورفت کی نسبتاً زیادہ سہولتیں تھیں …… انگریزوں کے وقت کے کچھ بنگلے بھی بنے ہوئے تھے…… اچھرہ اور نہر کے کناروں کے درمیان رحمن پورہ نامی ایک ذیلی بستی آباد ہونا شروع ہو گئی تھی…… جہاں کچھ شاعر، ادیب اور فلمی آرٹسٹ لوگ آ کر آباد ہونا شروع ہو گئے تھے…… لیکن ایک بڑی تبدیلی یہ آئی مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ کے اجل خلفاء میں شمار ہونے والے مفتی محمد حسن رحمتہ اللہ نے اپنے مشہور دینی مدرسہ جامعہ اشرفیہ کے لیے نہر کے کنارے اچھرہ کی جانب مسجد اور مدرسہ کی عمارت تعمیر کی…… دیوبند کے قدیم اساتذہ میں سے مولانا رسول خاں اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی نے وہاں درس نظامی کے طلباء کو پڑھانا شروع کر دیا…… یوں اس مدرسے کو بہت شہرت ملی جو اب تقریباً یونیورسٹی کا درجہ اختیار کر چکا ہے…… جامعہ اشرفیہ سے شہر کی جانب آئیں تو عین اچھرہ موڑ کی ایک مشرقی گلی کے چھوٹے سے بنگلے میں مفکر اسلام مولانا سید ابوالااعلیٰ مودودی نے بسیرا کر لیا…… جماعت اسلامی کے مرکزی دفاتر بھی اسی عمارت کے بیرونی حصے میں قائم ہو گئے تب جماعت سے تعلق رکھنے والے کئی سینئر رہنماؤں اور نعیم صدیقی مرحوم جیسے دانشوروں نے بھی اچھرہ میں کرائے کے مکان حاصل کر کے رہائش اختیار کر لی…… سامنے رحمن پورہ کی آبادی میں جماعت کے اس وقت کے دوسرے بڑے رہنما قرآن مجید کے عظیم مفسر صاحب تدبر قرآن مولانا امین احسن اصلاحی مکین ہو گئے…… ان کے ساتھ دو گلیوں کے فاصلے پر مولانا مودودی کے بڑے بھائی مولانا ابوالخیر مودودی نے خاموشی کے ساتھ بسیرا کر لیا…… ادھر اچھرہ کی جانب آئیں تو یہاں کی مشہور بازار نما سڑک ذیلدار روڈ پر خاکسار تحریک کے بانی علامہ عنایت اللہ المشرقی نے اپنا ڈیرہ جما لیا…… خاکسار تحریک کے کارکن خاکی وردیاں پہنے، بیلچے ہاتھ میں لیے روزانہ چپ راست کرتے اس گاؤں نما شہری بستی کی رونق میں اضافہ کرتے…… اندرون اچھرہ میں بریلوی مکتب فکر کے مشہور مناظر مولوی محمد عمر اچھروی صاحب نے دارالمقیاس نامی عمارت کھڑی کر کے اپنا فرقہ وارانہ تشخص قائم کر رکھا تھا…… یہیں سے وہ ملک بھر کی چھوٹی بڑی بستیوں میں مناظرے کرنے جاتے تھے…… یوں پچاس ساٹھ اور ستر کی دہائی کا اچھرہ جہاں روایتی طور پر کئی نسلوں سے ارائیں اور کمبوہ برادریاں آباد تھیں جیّد اصحاب علم و دین کا مسکن اور دو بڑی تحریکوں کا مرکز بن گیا…… چنانچہ جس اچھرہ کے اطراف میں کھیت ہی کھیت تھے اور رہٹوں کا چرخہ زمین سے پانی نکال کر انہیں آباد و شاد کرتا تھا وہاں قیام پاکستان کے بعد علم و عرفان کے سوتے بھی پھوٹنا شروع ہو گئے…… مولانا مودودی نے اپنی عظیم تفسیر تفہیم القرآن رقم کی جسے چار دانگ عالم میں شہرت حاصل ہوئی…… مولانا اصلاحی نے آٹھ جلدوں میں
تدبر قرآن کا علمی کارنامہ سرانجام دیا……
حکایت طویل تر ہو گئی ہے…… ذکر قربانی کی رسوم کی ادائیگی کا چھڑا تھا…… پرانے اچھرے کے تین اطراف میں چونکہ لہلہاتے کھیت اور انہیں سیراب کرنے والے قدیم دور کی یادگار رہٹ تھے اس لیے اچھرہ کے باسی جب ذوالحج کا چاند دیکھنے کے بعد بکروں اور چھتروں کی خریداری شروع کر دیتے تو ان کے لیے عید کے پہلے دن دنوں کے دوران انہیں کھیتوں میں لے جا کر زمین پر فطری طور پر اگنے والا چارہ کھلانا چنداں مشکل نہ ہوتا تھا…… وہیں کسی نہ کسی رہٹ پر انہیں لے جا کر پیاس بجھائی جاتی تھی…… لہٰذا عام درجے کے صاحب استطااعت کے لیے درمیانے درجے کا بکرا خریدنا اور اسے بڑے شوق کے ساتھ نہلا دھلا کر مہندی وغیرہ لگا کر اپنا اور بچوں کا شوق پورا کرنا چنداں مشکل نہ تھا…… مگر اب ایک تو قربانی کے جانوروں کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں …… دوسرا گھر اور گلیاں بازاروں میں تبدیل ہو گئی ہیں …… کھیت اور رہٹ جو ہوا کرتے تھے ان کا نام نشان باقی نہیں رہا…… ان کی جگہ چھوٹے بڑے لاتعداد رہائشی مکانات تعمیر کر لیے گئے ہیں …… بکرے ازحد مہنگے ہیں جبکہ انہیں عید سے ایک دو روز پہلے بھی لا کر گھر کے اندر یا باہر باندھنا کاردارد ہو چکا ہے…… اوپر سے کورونا کا ڈر اور خوف لہٰذا اگرچہ عید قربان کو تین روز باقی رہ گئے ہیں لیکن قربانی کے جانوروں کی پہلی سی رونق باقی نہیں رہی…… اس کے باوجود صاحب استطاعت لوگ امکان غالب ہے آج اتوار کے روز بچوں کو لے کر منڈی کا رخ کریں گے اور مہنگے ترین جانوروں کے ساتھ قسمت آزمائی کریں گے…… اب کثیر تعداد میں لوگوں نے گائے کی مشترکہ قربانی میں حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے…… گائیں اور خوبصورت بیل انفرادی طور پر مہنگے داموں پر خریدے بھی جا رہے ہیں …… ہمارے گلی محلوں میں یہ بھی بکروں اور چھتروں کے ساتھ رسی میں بندھے ہوئے اور قربانی کے شوقین لوگوں کی کمانڈ میں چلتے پھرتے نظر آئیں گے…… اگرچہ پہلے کے مقابلے میں بازاروں کے رش اور ان کی ہئیت بدل جانے کی وجہ سے کم نظر آئیں گے…… اسّی کی دہائی تک اونٹ خال خال ذبح کیے جاتے تھے……
مجھے یاد ہے لاہور میں پہلی مرتبہ عیدالاضحی کے موقع پر 1960 یا 61 میں اندرون شہر کے اندر اونٹ ذبح کیا گیا تھا…… اس کا بہت چرچا ہوا…… وقت کے اخبارات میں اس کی نمایاں خبر اور سج دھج کے ساتھ تصویریں چھپیں …… لوگ بڑے شوق سے اس کی ایک آدھ بوٹی حاصل کرنے کے لیے موقع پر جا موجود ہوئے کہ اصل سنت رسولؐ تو یہ ہے جبکہ مینڈھے کی قدر سنت ابراہیمی کی وجہ سے کی جاتی تھی…… لیکن اسّی کی دہائی کے وسط تک ہمارے شہر میں اچھرہ سمیت اونٹ کی قربانی کا رواج عام ہونا شروع ہو گیا…… اب تو یہ سنت نہایت کثرت کے ساتھ ادا کی جاتی ہے…… لوگ خاص طور پر اس کے گوشت کا قیمہ حاصل کر کے اسے ذائقہ طریقے سے پکانے یا کوئلوں کی آگ پر بھنے ہوئے سیخ کبابوں کی شکل میں کھانے کے خواہشمند ہوتے ہیں …… گائے اور بیل کی مانند اس کی قربانی میں بھی حصہ ڈالا جا سکتا ہے لیکن زیادہ تر شوقین اور جذبہ ایثار رکھنے والے صاحبان استطاعت اپنے لیے پورا اونٹ خریدتے ہیں جو قیمت میں پانچ سات لاکھ روپے سے کم نہیں ہوتا…… عام طور پر اسے عید کے تیسرے روز ذبح کیا جاتا ہے…… ایک میلے کا سماں ہوتا ہے…… مگر صاحبو اونٹ تو ہمیشہ سے مہنگا چلا آ رہا ہے اس برس تو اچھی گائے اور پلا ہوا دو دانتوں والا بکرا مالک سمیت وہ اکڑفوں دکھاتا ہے کہ خریدار بیچارہ اسے ہاتھ لگانے کی سکت رکھتا …… چھوٹے بکرے کی جانب متوجہ ہوتا ہے تو شرم کے مارے ڈوب جاتا ہے…… کہاں گئے وہ دن جب وہ بڑے قد کا دیسی بکرا خرید کر اپنا اور بچوں کا شوق پورا کیا کرتا تھا…… تب بچوں کی والدہ افراد کنبہ کو بتاتی تھی کبھی ایک ہزار روپے گھر میں پلے ہوئے خوبصورت بکروں کی جوڑی مل جاتی تھی تو گھر کے سب افراد یہ سن کر دانتوں میں انگلی دبا لیتے ہیں …… یہ وہ دور تھا جب میری والدہ لائے گئے ہزار روپے کی جوڑی کو دیکھ کر کہتی تھیں اچھرہ اور لاہور تو بہت مہنگا ہے میرے بچپن میں ہمارے میاں جی اور ان کے بھائی بڑی خوشی کے ساتھ پانچ روپے کے دو مینڈھے خرید کر لایا کرتے تھے…… 1950 میں میری والدہ مرحومہ ہمارے خاندان کی پہلی خاتون کے طور پر اپنے والد (ہمارے نانا) کے ساتھ حج پر گئیں …… یہ پانی والے جہاز کا سفر تھا…… ہم لوگ بڑے شوق کے ساتھ کراچی جانے والی ریل میں بیٹھ کر انہیں الوداع کہنے گئے تھے…… واپسی پر والدہ بتاتی تھیں حج کے اگلے روز ہم نے دو دو بکرے خرید کر ذبح کر کے اپنے لیے تھوڑا سا گوشت نکال کر باقی مقامی بدؤں کے سپرد کر دیا تھا…… 1940 میں میرے دادا جان مرحوم خاندان کے پہلے مرد کے طور پر سفر حج پر تشریف لے گئے تھے…… وہی پانی والا جہاز تھا اور یہ ممبئی سے اس پر سوار ہوئے تھے…… جدہ سے مکہ معظمہ تک اونٹوں پر بیٹھ کر وہاں پہنچے…… دادا بتایا کرتے تھے قربانی کے دن عربوں نے بڑی تعداد میں اونٹ ذبح کیے لیکن ہم نے ڈھونڈ کر مینڈا تلاش کیا…… پھر کہیں سے وطن سے آئے ہوئے قصاب کا پتا لگایا…… اس نے گوشت بنا کر دیا…… 2009 میں مجھے میری اہلیہ اور دو بیٹیوں کو مل کر حج بیت اللہ کی سعادت نصیب ہوئی…… تب ہم نے اپنے اپنے حصے کی قربانی کے پیسے پاکستان سے روانگی کے وقت جمع کرا دیے تھے…… وہاں حج کے اگلے روز معلوم ہوا اپنی قربانی کا گوشت تو سرکار والا تبار کی جانب سے ہمارے نصیب نہیں ہو گا البتہ کسی بکرے یا گائے کے گوشت کا ایک ٹکڑا ہمیں خود پکانے کی خاطر دیا جا سکتا ہے…… اسی اثناء میں مکہ معظمہ میں مقیم ایک پاکستانی فیملی نے ہمیں اپنے گھر قربانی کے گوشت کے لذیذ طعام سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دی…… ہم نے اسی کو غنیمت جانا اور اللہ تعالیٰ کا ہزار بار شکر ادا کیا…… جون 1991 میں بھارت میں عام انتخابات منعقد ہوئے…… میں صحافی کے طور پر ان کا جائزہ لینے کے لیے نوائے وقت کی جانب سے دہلی لکھنؤ علی گڑھ اور دوسرے مقامات پر گیا…… عیدالاضحی نزدیک تھی…… میں ایک رکشا پر بیٹھ کر جسے سکھ ڈرائیور چلا رہا تھا نئی دلی سے پرانے شہر کی جانب جا رہا تھا…… رکشا وہاں کی مشہور رام لیلا گراؤنڈ کے پاس سے گزرا تو مسلمان بچے اپنے بکروں اور چھتروں کو رنگین چادروں سے بجا بنا کر گھاس چرانے کے لیے وہاں لے کر آئے ہوئے تھے…… میں نے یہ منظر دیکھتے ہی سکھ ڈرائیور سے کہا سردار جی دیکھیے مسلمانوں نے کیا رونق لگائی ہوئی ہے…… سردار صاحب یہ سن کر بھڑک اٹھے…… کہا مہاراج یہ کہاں کی رونق ہے معصوم جانوں کے گلوں پر چھری پھیر کر اپنا پیٹ بھرا جائے میں مصلحتاً خاموش ہو گیا اور سوچنے لگا بھارتی کیسی قوم ہیں …… جانور کا گوشت کھانا پاپ سمجھتے ہیں …… مبادا اس کی جان کو تکلیف پہنچے…… لیکن بانیا ذہنیت کے تحت اس کا گلا کاٹ کر گوشت کو برآمد کرنے اور خوشی کے ساتھ زرمبادلہ کمانے کو قومی فریضہ گردانتے ہیں …… خیر داستان طویل ہو گئی معلوم نہیں آپ شوق سے پڑھ یا سن بھی رہے ہیں یا نہیں لیکن صاحبو اس مرتبہ تو قربانی کا جانور اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ بکرے کے قریب نہیں پھٹکا جاتا…… قیمت سن کر اسے ہاتھ لگانے سے جلتے ہیں …… اگر آپ جذبہ ایثار و قربانی کے تحت سال بھر کی جمع شدہ پونجی خرچ کر کے اسے گھر لے آئیں گے تو عید کی نماز کے بعد مشکل سے ہاتھ آیا ہوا قصاب بکرے کے ساتھ آپ کی کھال بھی اتار لے گا……
قربانی
11:30 AM, 18 Jul, 2021