گزشتہ دنوں تاشقند کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی کی وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں پاکستان پر ہرزہ اسرائی جہاں سفارتی آداب کی خلاف ورزی تھی وہیں اس بات کی بھی غماز تھی کہ ہمیشہ کی طرح موجودہ افغان حکومت کی ڈوریں پاکستان دشمن قوتوں کی طرف سے ہلائی جا رہی ہیں۔ مولا علی کیا خوب کہہ گئے تھے کہ جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو۔
وزیر اعظم نے افغان صدر کے الزامات کا مدلل جواب دے کر جہاں دنیا کو پاکستان کے موقف سے آگاہ کیا وہیں افغان حکومت کی منافقت کو بھی بے نقاب کیا کہ جس ملک نے بیس سال اپنے افغان مہاجرین کو جس طرح گلے لگایا اس سے انصار مدینہ کی یاد تازہ ہو گئی۔گو کہ ہمیں اس کی قیمت 70 ہزار شہدا اور اربوں ڈالر کے مالی نقصان، ہیروئن و کلاشنکوف کلچر اور فرقہ واریت کی صورت میں ادا کرنی پڑی لیکن ہم پھر بھی افغان مہاجرین کی مدد سے پیچھے نہیں ہٹے۔ اس کے پیچھے یہ جذبہ کارفرما تھا کہ حکومتوں نے جو کچھ کیا ہو اس کی سزا عوام کو نہیں ملنی چاہیے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ڈکٹیٹر ضیا الحق سے لے کر مشرف کے ادوار میں ہم نے افغانستان میں امریکہ کی پراکسی جنگ لڑی۔ امریکہ نے سب سے پہلے ضیا الحق کو بطور آلہ کار استعمال کرتے ہوئے منتخب وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کو برطرف کر کے ان کا عدالتی قتل کر تے ہوے اقتدار اعلیٰ پر بزور قوت قبضہ کیا۔ پھر افغانستان سے روسی عملداری ختم کرنے کے لیے امریکہ کا حواری بنتے ہوئے اس جنگ میں چھلانگ لگا دی اور دنیا بھر سے ہزاروں جنگجو بھرتی کرتے ہوے پاکستان کو میدان جنگ بنا دیا۔ بالاآخر اس کی قیمت بھی ہمیں ہی ادا کرنی پڑی لاکھوں مہاجرین پاکستان عود آئے۔ بالآخر پاکستان کی مدد افغانیوں کی جرآت اور امریکی پشت پناہی کی وجہ سے روسی افواج کا افغانستان سے انخلا ممکن ہوا۔ لیکن امریکہ اور اقوام عالم نے اس کامیابی کے بعد جدید ترین اسلحہ سے لیس ہزاروں بیروزگار افغانی جنگجوؤں اور افغانستان کو مفتوحہ علاقوں کی طرح بے یارو مددگار چھوڑ دیا۔ جس کا نتیجہ 9/11 کی صورت نکلا اور اس کا ملبہ بھی افغانستان پر ڈال دیا گیا۔
یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ امرہکہ نے تمام غلط کاریوں کی توثیق اور مطلوبہ نتائج کے حصول کے لیے جمہوری حکومتوں کو ختم کروا کر وطن عزیز پر آمریت مسلط کرتے ہوے حاصل کیں۔ کیونکہ ڈکٹیٹر کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا جبکہ منتخب حکومتیں پارلیمنٹ اور عوام کو جوابدہ ہوتی ہیں. یہ ایک الگ
بحث ہے کہ کبھی کبھار ہماری منتخب حکومتیں بھی اپنی جلد بازی سے جمہوری حکومتوں کے خاتمے کا سبب بن جاتی ہیں اس موضوع پر پھر کبھی لکھوں گا۔۔ خیر 9/11 سے قبل 1999 میں ہی نواز شریف کی منتخب حکومت ختم اور مشرف آمریت مسلط کر دی گئی تھی اس لیے امریکہ کے لیے من مانی کرنے کے لیے میدان صاف تھا۔ اس بار صرف ایک فون کال پر ڈکٹیٹر مشرف ڈھیر ہو گیا اور پاکستان کی سرزمین، فضا اور بحر امریکی افواج کے لیے کھول دیں۔ پاکتان کو بھی اس کی قیمت ادا کرنا پڑی اور نتیجتاً پاکستان کی سرزمین دہشت گردوں کے ہاتھوں بے گناہ عوام کے خون سے رنگین ہو گئی روسی دراندازی کے بعد افغانستان امریکی حملوں کے باعث ایک بار پھر اجڑ گیا اور افغان دربدر ہو گئے۔ 9/11 کے بعد سے آج تک امریکہ نے افغان طالبان کے خلاف 20 سال جنگ لڑ کر یہ سبق حاصل کیا کہ افغانستان بیرونی حملہ آوروں کے لیے ہمیشہ قبرستان بنا ہے۔ 20 سال بعد امریکہ نے افغانستان سے افراتفری اور بغیر منصوبہ بندی کے ایک مضبوط حکومت بنائے یا طالبان کو شریک اقتدار کیے بغیر نکلنے کا فیصلہ کیا اور خطے اور افغان عوام کو ایک بار پھر طالبان کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ پاکستان جس نے ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیااس سارے عمل سے نہ صرف دور رکھا بلکہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کو اس عمل میں پیش پیش رکھا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت کی کوئی سرحد افغانستان سے نہیں ملتی امریکہ نے اپنی پٹھو افغان حکومت کے ذریعے بھارت کو افغانستان میں کھل کھیلنے کا موقع دیا۔ نتیجتاً بھارت نے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیاں کی۔ تاشقند کانفرنس میں افغان صدر کی پاکستان پر الزام تراشیاں بھی بھارتی زبان ہی تھی۔ یوں تو ایران بھی امریکہ دشمنی میں سب سے آگے ہے لیکن اس نے بھی امریکی حواری بھارت کو اپنی سرزمین سے افغانستان تک رسائی دی۔
اب اگست تک امریکی افواج کا انخلا مکمل ہو جاے گا لیکن دو ماہ قبل ہی طالبان نے افغانستان کے دفاعی لحاظ سے اہمیت کے حامل مختلف علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے۔ خاص طور پر اپنی حربی صلاحیت کے ذریعے افغانستان کے سرحدی علاقوں پر کنٹرول حاصل کر کے زمینی راستوں پر اپنی عملداری قائم کر دی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زمینی تجارت، وسط ایشیا، ایران، پاکستان اور دوسرے ہمسایہ ممالک سے منسلکہ سرحدیں افغان طالبان کے زیر اثر ہوں گی۔ طالبان روس اور چین کے علاقوں میں پہلے ہی کسی بھی قسم کی دخل اندازی نہ کرانے کی یقین دہانی کرا چکے ہیں۔
امریکہ کے جانے کے بعد روس اور چین کے بھی خطے میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے اور یہ دلچسپی فوج کشی سے ہٹ کر معیشت پر مبنی ہوگی۔ پاکستان کو بھی اس طرف توجہ دے کر اپنا حصہ لینا چاہیے کیونکہ ان اطراف سے دنیا کے ساتھ روابط کے لیے تمام رستے پاکستان اور پاکستانی سمندروں سے ہی ممکن ہے۔
طالبان کی پیش قدمی صوبہ بدخشان کے مشرق میں واخان کوریڈور کی طرف بھی رپورٹ ہوئی ہے۔ واخان کاریڈور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ واخان چین کے پامیر پہاڑی سلسلے پر واقع ایک پٹی ہے، اور یہاں پاکستان افغانستان اور تاجکستان تینوں کی سرحد ملتی ہی۔ واخان کوریڈورافغانستان کے شمال مشرق سے ہوتا ہوا چین کی سرحد تک جاتا۔ پاکستان اور ایران سے ملنے والے افغان بارڈر پر بھی طالبان کے قبضے کی متضاد اطلاعات ہیں۔ چین سے متصل وخجیر بائی پاس یعنی پرانی شاعرہ ریشم پر چین ایک بڑی شاہراہ کی تعمیر بھی شروع کرنے والا ہے۔ منصوبے کے مطابق یہ سڑک وسطی ایشیاء کو افغانستان بذریعہ شاہراہِ قراقرم سے کاشغر کو ملائے گی۔ اور اس کی تعمیر سے تاجکستان کو شاہراہِ قراقرم کے ذریعے پاکستانی سمندر تک رسائی ملے گی۔ پاکستان کو بھی معدنیات سے بھرپور وسطی ایشیاتک رسائی ہو جاے گی۔ تاریخی حوالے سے بدخشان زمانہ قدیم سے شاہراہ ریشم کی گزرگاہ تھی۔ غالبا اسی وجہ سے چین نے اس صوبے میں بڑی دلچسپی لی اور افغان حکومت کی مدد کو وہاں سڑکوں اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو کی جا رہی ہے۔ ویسے بھی چین کی شراکت داری کا مطلب ترقی ہے۔
اس سارے کھیل میں دیکھنا ہو گا کہ طالبان اور افغان حکومت نئے افغانستان کی تعمیر چاہتے ہیں، آپس کے یا علاقائی تنازعات میں الجھ کر ایک بار پھر افغانستان کو کھنڈر بنانا چاہتے ہیں۔ بہتر تو یہ ہے کہ مار دھاڑ کی بجاے افغان عوام کو ایک پر امن اور ترقی یافتہ افغانستان دیا جاے۔
سب سے اہم بات کہ پاکستان کو اس سارے کھیل میں سابقہ پالیسیوں سے ہٹ کر چلنا چاہیے۔ماضی میں افغان معاملات میں دخل اندازی کر کے ہم نے سب کھویا ہی ہے پایا کچھ نہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ ہماری سول اور عسکری قیادت اس بار افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہونے کی علمبردار ہیں۔ اللہ کرے کہ ہم اس پر قائم بھی رہیں۔
قارئین اپنی رائے کے اظہار کے لیے اس نمبر 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔
طالبان، افغانستان، چین اور ہم……
11:08 AM, 18 Jul, 2021