تہران:عرب اقوام بالخصوص خلیجی ملکوں کے باشندوں سے نفرت ایرانی معاشرے میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جس کا اظہار ایرانی شہروں مختلف مظاہروں سے با آسانی کیا جا سکتا ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق ایران کے شمالی مشرقی شہر مشہد میں اہل تشیع کے آٹھویں امام ’امام الرضا‘ کا مزار ہے۔ یہاں خلیجی ملکوں، عراق اور شام سے صرف شیعہ مسلک کے لوگ آتے ہیں۔
مگر یہاں پر لگے بل بورڈز پر عربوں اور خلیجیوں سے نفرت کا یکساں اظہار ہوتا ہے۔ عربوں اور خلیجی شہریوں سے نفرت پر مبنی نسل پرستانہ نعروں کی چاکنگ، پوسٹر اور بینر مشہد کے کوچہ بازار میں اکثر دیکھے جاتے ہیں۔شاعر، موسیقار، ڈاکٹر یا کوئی بھی دوسرا پیشہ ہو ہرایک خلیجی باشندوں دشمنی کے اظہار کو اپنا قومی فریضہ خیال کرتا اور نفرت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔
کچھ عرصہ پیشتر ایران میں ایک آن لائن گیم کافی مشہور ہوئی جسے ”عربوں کو گالی دو اور قتل کرو“ کا نام دیا گیا۔ اس سلسلے کی تازہ کڑی ایران کے جنرل اسٹور ہیں،جہاں عرب قوم بالخصوص سعودی عرب کے خلاف نفرت کے مظاہر اور خاکوں کے ذریعے سعودیوں کا مذاق اڑانے کی بھونڈی کوششیں کی گئی ہیں۔
ایران میں نسل پرستی کے مخالف کارکنان نے اسٹوروں کے بیرونی اطراف میں لگے شیشوں کے پیچھے ایسے پوسٹر کی تصاویر حاصل کی ہیں جن پر عربی، انگریزی اور فارسی میں لکھا ہے کہ ”یہاں عربوں کا داخلہ منع ہے۔ایرانی سماجی کارکن محسن رسولی نے بھی مذکورہ نسل پرستانہ نوٹس کا حوالہ دیا ہے۔
انہوں نے یہ تصاویر عرب سماجی کارکن عبدالکریم دحیمی کے صفحے سے نقل کیں اور ایرانی تبصرہ نگاروں کے لیے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پوسٹ کیا۔ ایک شخص نے اس پر لکھا کہ ’ہم کیوں کر ایسے نفرت بھرے الفاظ لکھ سکتے ہیں۔ ہماری 2500 سالہ پرانی تاریخ اور تہذیب ہے۔ ہم سب سے زیادہ نسل پرستی کی فضاءسے متاثرہ قوم ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ طاقت کے ذریعے نسل پرستی پھیلائی جا رہی ہے۔ایران کی پوری تاریخ اور سماج عرب اقوام سے نفرت سے عبارت رہا ہے۔
ایران کے فارسی شاعر ابو القاسم فردوسی کی شاعری کا مرکز بھی عربوں سے نفرت کا اظہار ہے۔ اپنی شعروں وہ موصوف نے عربوں کو اونٹنی کا دودھ پینے والے اور چھپکلی کھانے والے کہا اور لکھا کہ بادشاہی کا خواب دیکھنے والے ایسے عرب شہزادوں پر زمانے کی پھٹکارہے۔
نیو نیوز کی براہ راست نشریات، پروگرامز اور تازہ ترین اپ ڈیٹس کیلئے ہماری ایپ ڈاؤن لوڈ کریں