عمران خان نے اہلیہ کے ساتھ مل کر اربوں کا فراڈ کیا: عظمیٰ بخاری

11:53 AM, 18 Jan, 2025

نیوویب ڈیسک

لاہور: صوبائی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی نے مل کر اربوں روپے کا فراڈ کیا۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 190 ملین کیس میں عمران خان کو چوری پر سزا دی گئی، جس کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے مسلسل احتجاج کیا جا رہا ہے۔

عظمیٰ بخاری نے کہا کہ برطانوی ایجنسی این سی اے نے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا تھا کہ آپ کے پیسے واپس کیے جائیں گے، مگر وہ پیسے حکومتی اکاؤنٹ میں منتقل کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں منتقل کیے گئے، جہاں ان پیسوں کی بندر بانٹ کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں ملزمان کو بیان ریکارڈ کرانے کے لیے 15 مواقع دیے گئے، لیکن انہوں نے تاخیری حربے استعمال کیے۔ علیمہ خان کا بیان تھا کہ وہ خود چاہتے ہیں کہ کیس کا فیصلہ جلد ہو، اور کیس میں جرح مکمل کرنے کے لیے 35 سماعتیں ہوئیں، جس میں شہزاد اکبر کا اہم کردار تھا۔

عظمیٰ بخاری نے یہ بھی کہا کہ شہزاد اکبر کو باعزت طریقے سے باہر جانے کی اجازت دی گئی، جس پر سوالات اٹھتے ہیں۔ انہوں نے عمر ایوب کے اس بیان پر بھی ردعمل دیا کہ کرپشن کے حوالے سے حسن نواز سے بات کی جائے، حالانکہ این سی اے نے حسن اور حسین نواز کے اکاؤنٹس کی چھان بین کے بعد انہیں کلیئر قرار دیا۔

وزیر اطلاعات نے شیخ وقاص اکرم کی جانب سے بند لفافے کی باتوں کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ بند لفافہ اس وقت کھولنا چاہیے تھا جب وہ کابینہ کا حصہ تھے۔ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ جنہوں نے عمران خان کو سیاست میں لایا، ان کے لیے یہ شرمندگی کا مقام ہے، اور عمران خان کو صادق و امین قرار دینے پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو کچھ عمران خان کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ مکافات عمل ہے، اور اس معاملے کو اعلیٰ عدالتوں کے نوٹس میں لایا جانا چاہیے۔ عظمیٰ بخاری نے یہ بھی کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ نے پاکستانی خزانے کے کروڑوں روپے ضائع کیے، اور عمران خان کو کلین چٹ دی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان وزیراعظم ہوتے ہوئے کیسے ٹرسٹی بن سکتے ہیں؟

وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ عمران خان ملک بھر میں یونیورسٹیاں بنا سکتے تھے، مگر انہوں نے صرف القادریونیورسٹی بنا کر فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی میڈیا عمران خان کو کرپٹ قرار دے رہا ہے، اور اس پر اعلیٰ عدالتوں کو نوٹس لینا چاہیے

مزیدخبریں