یہ کون لوگ ہیں؟

Asif Anayat, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

صادق اور امین بعثت اسلام سے پہلے سے میرے آقا کریمؐ کا لقب ہے۔ نہ جانے منافقت کا وہ کونسا گھٹیا معیار تھا جس نے یہ الفاظ آئین میں رکھ دیئے۔ عدالتوں، میڈیا اور ہمیں عام گفتگو میں اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ چند تعریفیں صرف آقا کریمﷺ کے لیے ہیں یعنی صحابیؓ صرف آقاؐ کے احباب جو ایمان لائے، اہل بیتؓ صرف آقاؐ کے گھر والے، یار غار صرف حضرت ابوبکر صدیقؓ، ازواج مطہراتؓ صرف آقاؐ کی ازواج مطہرات۔ مگر ہم اتنے ظالم ہیں کہ محسن انسانیت جیسا خطاب الطاف حسین کے لیے دیواروں پر لکھ دیا۔ ثاقب نثار جو آج عبرت کی پاتالوں میں اتر رہا ہے اس کی دیگر وجوہات میں سے ایک اس کا عمران خان کو صادق اور امین قرار دینا تھا۔ ایک دفعہ ہائی کورٹ میں ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس پاکستان خطاب کیا تو بظاہر جذبات کی رو میں بہتے ہوئے آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو گئیں اور رونا شروع کر دیا، ماحول کافی جذباتی ہو گیا۔ واپسی پر گاڑی میں اپنے سیکرٹری گورایہ سے کہنے لگا، بتاؤ آج میں نے کیسا کام کیا؟ یعنی بار میں جو رو کر لوگوں کو جذباتی کر دیا۔ دراصل یہ انوپم کھیر سے بڑے فنکار ہیں، اپنے آپ پر وہ کیفیت طاری کرتے ہیں جو انہوں نے بات کرنی ہو۔ دیگر لوگوں کی بندہ کیا بات کرے، شیخ رشید کئی بار کہہ چکا ہے کہ اپوزیشن کے لیے کچھ نہیں، گیٹ نمبر چار پر ہم بیٹھے ہیں۔ اب اس بیان سے اندازہ لگا لیں کہ اس کی حیثیت کیا ہے، گیٹ پر کون ہوتا ہے؟ مری سانحہ جس نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا، اس پر جس بے شرمی کے ساتھ شہباز گل نے روزانہ کی بنیاد پر طنزیہ اور سیاسی ٹوئٹ کیے لگتا ہے انسانیت اور حمیت اس کے قریب سے بھی نہیں گزرے۔ وفاقی وزیر غلام سرور نے پچھلے سال درفنطنی چھوڑی کہ سردیوں میں گرم پانی سے نہانا عیاشی ہے، گویا اس کے گھر والے تو یہ عیاشی نہیں کرتے ہوں گے؟ کل پرسوں ٹی وی آن کیا تو غلام سرور میڈیا سے بات کر رہا تھا کہ مہنگائی تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے، یہ آپ لوگ یعنی میڈیا ہائپ creat کرتا ہے۔ مہنگائی صرف میڈیا میں ہے اور اگلے دن ہی پٹرول 150 روپے لیٹر کر دیا گیا۔ کوئی کہتا ہے چاروں شریفوں کی گنجائش نہیں۔ ایک نے بیان دیا، شاید بزدار (عرف لاہور میں شہبازشریف لگ گیا ہوں) نے کہا، تاریخ کی نالائق ترین اپوزیشن!!!۔ بندہ اس ’’دانشور‘‘ سے پوچھے کہ ڈلیور اپوزیشن کرنا ہوتا ہے کہ حکومت نے؟ دراصل اس بیان میں چھپی حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت تاریخ کی بدترین، نالائق ترین، نااہل ترین، ڈھیٹ ترین اور خوش فہمی میں مبتلا ترین حکومت ہے۔ کابینہ کے موجودہ وزیراعظم کی خصوصی تحریر کی ہیڈلائن پڑھی، ’’طاقتور، مکار، سیاستدان مافیا، قانون سے بالاتر رہنے کا عادی، اداروں کو کرپٹ کر دیا‘‘۔ حالانکہ کرپٹ ادارے تو ٹھیک ہو سکتے ہیں مگر جانبدار ادارے کبھی درست نہیں ہو سکتے۔ نواز شریف کا کیس ابھی شروع ہوا تھا تو جسٹس کھوسہ نے کہا ’’ایسا فیصلہ دیں گے جو 20 سال یاد رکھا جائے گا‘‘۔ گویا مقدمہ شروع ہونے سے پہلے ہی موصوف اپنا ذہن بنا چکے تھے۔
حکومت کے سرخیل کابینہ کے وزیر اعظم، شیخ رشید، معاون خصوصی شہباز گل، گورنر سرور، ہمایوں اختر، فواد چودھری نہ جانے یہ کون لوگ ہیں۔ ان کے بیانات وطن عزیز نہیں مریخ کی مخلوق کے لیے ہو سکتے ہیں۔ پٹرول کی قیمتیں 55 فیصد سے زیادہ بڑھا دی گئیں، خورو نوش، دوائیاں، بنیادی ضرورتوں کی اشیا کی قیمتیں 700 فیصد سے ضرب کھا گئیں، انصاف کی نام کی چیز نہیں اور یہ لوگ کیا باتیں کرتے ہیں۔
ایک سٹیج ڈرامے میں ایک چودھری تھا جس کی ایک آنکھ، ایک ٹانگ، ایک بازو نہیں اور شکل بدصورتی کا شاہکار دکھائی گئی۔ وہ سٹیج پر دیگر لوگوں کو آ کر پورے رعب سے کہتا ہے، اوئے نالائقو، جاہلو، گنوار، نکمو نکھٹوؤ کوئی کام کر سکتے ہو؟ دوسرا مسکین سا بندہ کہتا ہے، اللہ کی شان ہے ہمیں کہہ کون رہا ہے؟ یعنی جو خود کسی لحاظ سے مکمل نہیں، وہ مکمل انسانوں سے کیا کہہ کر رہا ہے۔ ملک عالمی سطح پر تنہائی کا شکار، ملک کے اندر اپوزیشن یا کسی بھی طبقے سے کوئی تعلقات کار نہیں۔ کسی ایک شعبے میں بہتری نہیں بلکہ ہر شعبہ میں انحطاط، تنزلی اور تباہی نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ روایات، باہمی احترام، برداشت، رواداری، وضعداری کا جنازہ نکل گیا۔ نفرت حکمرانوں کا منشور بن کر رہ گئی۔ جو کہتے تھے کہ سڑکیں نہیں قوم بنائیں گے، سڑکیں جو بنی تھیں ٹوٹ گئیں اور قوم کا شیرازہ بکھر گیا۔ میں سوچتا ہوں یہ کون لوگ ہیں جو ہم پر مسلط کر دیئے گئے۔ شاید ہم سے کوئی اجتماعی گناہ ہوا ہے۔ میرے پاس کوئی چڑیا تو نہیں، نہ ہی کوئی ذرائع ہیں۔ چند ’’تجزیہ کار‘‘ ہیں جو سیاسی محکمہ موسمیات ہیں۔ طاقتور حلقے غیر جانبداری دکھائیں تو یوسف رضا گیلانی سینیٹر، خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی کھٹیا کھڑی ہو جاتی ہے۔ حکومت جب گھبرا جاتی ہے تو یہ ’’تجزیہ کار‘‘ عمران خان اور آمریت کے حق میں اور جمہوریت کے مخالف بیانات دینا شروع کر دیتے ہیں۔تو پھر طاقتور حلقے حکومت کو ’’کورامین‘‘ (دل کو طاقت دینے والی ہومیو پیتھک دوا) کے طور پر یقین دلاتے ہیں کہ یہ دیکھو ہمارے تجزیہ کاروں نے آپ کے حق میں بیان دے دیا۔ ایوب خان کے 18سال، یحییٰ کے 3سال، ضیا کے 11سال، مشرف کے 9 سال اور ہائبرڈ نظام کے 4 سال جو تحائف دے گئے ہیں جو ہاتھی دروازے پہ باندھ گئے ہیں، کیا ہم ان کو افورڈ کر سکتے ہیں۔
شرم آنی چاہیے ایسے لوگوں کو جو جانتے ہوئے بھی صرف اپنی ذات کی خاطر لوگوں کو بہکاتے ہیں۔ یاد رہے کہ تعلیمی ادارے، میڈیکل کالج، تعلیم مفت، اندرون ملک بیرون ملک روزگار دلانے والے، اسلامی دنیا کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے والے، سرکارؐ کو آخری نبی نہ ماننے والوں کو غیر مسلم قرار دینے اور ان گنت اصلاحات کرنے والے، ایٹمی ٹیکنالوجی دینے والے کو سولی پر لٹکا دیا۔ ایٹمی میزائل اور جمہوریت کے لیے، عوامی حقوق کے لیے لازوال جدوجہد کرنے والی کو ساری دنیا کے سامنے گولی مار دی گئی۔ چلتے لمحے میں سب سے مقبول رہنما نوازشریف کو جگتیں مارنے والے اور نئی نسل کی شفاف قیادت بلاول بھٹو پر فقرے کسنے والے نہ جانے یہ کون لوگ ہیں جو ہم پر مسلط ہو گئے۔ یوں تو سیاست دان یا حکمران طبقے اس قابل نہیں کہ ان پر وقت ضائع کیا جائے چونکہ وطن عزیز کی گاڑی اناڑی ڈرائیوروں کے ہاتھوں میں ہے، اس لیے بات کرنا پڑ جاتی ہے۔ آپ ملک پر نحوست کے سائے اور ناقابل برداشت حالات دیکھ لیں اور حکمران طبقے کے بیانات پڑھیں، دعوے جگتیں سنیں تو ضرور چلا اُٹھیں گے کہ یہ کون لوگ ہیں؟

مصنف کے بارے میں