ایک کالم بہنوں کے نام

Umer Khan Jozi, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

ان کالہجہ دیکھیں اوربات کرنے کی تمیز،یہ ہروقت موبائل سے کھیلتی رہتی ہیں،انہیں مریضوں کی کوئی فکرہے اورنہ کوئی پروا، یہ ہزاروں کی تنخواہیں لے رہی ہیں لیکن کام ایک ٹکے کابھی نہیں کرتیں۔یہ اوراس طرح کی دیگرباتیں ان کے بارے میں ہم نے نہ صر ف دوسروں سے بار بارسنی بلکہ کئی بارخودبھی ارشادفرمائی اورہزاربارفرمائی ۔بہت سے لوگ تو آج بھی ان کے بارے میں اسی طرح کے نظریات وخیالات رکھتے ہیں۔ہم مانتے ہیں کہ ان کے ہاں بھی نکمے،کام چور اوربرے لوگ ہوں گے۔جس طرح ہر گھر اور در پر نیک، پرہیزگار اور اچھے لوگوں کے ساتھ بداخلاق، بدتمیز، برے اورگناہ گار پائے جاتے ہیں اسی طرح ان میں بھی اچھے ،نیک اورخدائی خدمتگاروں کے ساتھ بداخلاق اوربرے لوگ ہوں گے لیکن شمارکے ان چندبرے اورگناہ گاروں کی وجہ سے جس طرح کسی پورے خاندان، گھر، محکمے، ادارے اورمعاشرے کو بد اور برے کانام نہیں دیاجاسکتااسی طرح ان چندکی وجہ سے ان خدائی خدمتگاروں کوبھی مجرم اورگناہ گارقرارنہیں دیاجاسکتا۔پھران کاشعبہ اورپیشہ توایساہے کہ جس کے بارے میں ہمیشہ کہاجاتاہے کہ خدمت سے خدابھی ملتاہے۔جن کو خدا مل جائے ان کو پھر اور کیا چاہئے؟ کمی پیشی ہرانسان سے ہوتی ہے۔یہ بھی انسان ہیں کوئی روبوٹ نہیں کہ ان سے کوئی غلطی سرزدنہ ہو۔ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم انسانوں کی خامیوں، کوتاہیوں اور گناہوں کو تو گھور گھور کردیکھتے ہیں لیکن ان کی اچھائیوں اوربھلائیوں پرہماری نظرنہیں پڑتی۔ کراچی سے گلگت ،لاہورسے کشمیراورکاغان سے چترال تک سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کی دیکھ بھال اور خدمت پرماموران نرسزکی غلطیاں اور کوتاہیاں توہم سب دیکھ اورگن رہے ہیں لیکن جن مشکل حالات میں جس تکلیف اورپریشانی میںیہ اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں اس کاہمیں کوئی احساس ہے اورنہ ہی کوئی خیال۔ ہمارے ہاں عام طورپرڈاکٹرزکوہی مسیحا کا نام دیاجاتاہے اوردینابھی چاہئے۔ ہمیں اس پرکوئی اعتراض نہیں ۔بلاکسی شک وشبہ کے ڈاکٹرزمسیحابلکہ کچھ ڈاکٹرتومسیحاسے بھی بڑھ کرہوتے ہیں لیکن ڈاکٹرزکے ساتھ یہ بے چاری نرسیںبھی توکسی مسیحاسے کم نہیں ہوتیں۔اگردیکھاجائے توزخموں پر اصل مرہم ہی تو یہ نرسزرکھتی ہیں۔ڈاکٹرزتومریضوں کامعائنہ اوررائونڈکرکے چلے جاتے ہیں پیچھے پھر یہی نرسیں ہی ہوتی ہیں جوصبح سے شام اورپھرشام سے صبح تک مریضوں کی دیکھ بھال میں مصروف رہتی ہیں۔ہم نے کرونا وبا کے دوران ان نرسزکوبہت قریب سے موت سے لڑتے ہوئے دیکھا۔ایک ایسے وقت میں جب کروناکے مریضوں سے بیگانے کیا۔؟اپنے بھی دوربھاگ رہے تھے، غیر کیا۔؟ اپنے  خونی رشتہ داربھی ان سے ہاتھ لگانے کے لئے تیار نہیں تھے ۔اس مشکل اورکڑے وقت میں بھی یہی وہ نرسیں تھیں جو جان کو ہتھیلی پررکھ کرکرونامریضوں کی دیکھ بھال اورخدمت کافریضہ ایمانداری کے ساتھ سرانجام دے رہی تھیں۔ موبائل، کام چوری، بداخلاقی اوردیگرحوالوں سے ہمارے گلے اورشکوے توان نرسزسے شائدازل سے ہیں جوغالباًابدتک جاری رہیں گے لیکن ان نرسزکے بھی ہم اورہمارے اس معاشرے سے ایک دونہیں بہت سارے گلے اورشکوے ہیں ۔کراچی سے گلگت تک ملک کی ساری نرسزعالم خاموشی میں آج بھی یہ کہتی جا رہی ہیں کہ تم نے توہمیشہ ہمارے بارے میں کہا اور سنا لیکن ’’کاش کہ تم نے ہم سے بھی کچھ سنا ہوتا‘‘۔ کچھ دن پہلے ہزارہ کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد میں نرسزایسوسی ایشن کی عہدیدارمحترمہ فرحت نازسے ملاقات کے دوران اس کی ساتھی نرسزنے عوامی برتائو،رویے اورسلوک پر جوگلے اورشکوے کئے اس پرکم ازکم میرے پاس افسوس کے سواکوئی چارہ نہ تھا۔ سوچتا ہوں ہماری یہ مائیں ،بہنیںاوربیٹیاں برسوں سے دن رات ایک کرکے انسانیت کی بلاتفریق خدمت کر رہی ہیں لیکن اس کے بدلے میں ہم نے بدتمیزی، لڑائی، جھگڑوں اورگالیوںکے ان کو کیا دیا۔؟ اللہ نہ کرے کسی ہسپتال میں نرس سے کوئی چھوٹی سی غلطی سرزدہوجائے توہم پورے ہسپتال کو سرپراٹھالیتے ہیں۔کیاہمارے گھروں میں ہماری مائیں ،بہنیں اوربیٹیاں نہیں۔؟ کیاہماری مائوں، بہنوں اور بیٹیوں سے کبھی غلطیاں  نہیں  ہوتیں۔؟ کیا ہم نے کبھی ایک لمحے کے لئے بھی سوچاکہ سرکاری ہسپتالوں میں دن رات خدمات سرانجام دینے والی یہ نرسیں بھی آخرکسی کی ماں،کسی کی بہن اورکسی کی بیٹیاں ہونگی۔ بوڑھے ماں باپ اور چھوٹے بہن، بھائیوں اور بچوں کوگھروں میں چھوڑ کر ہماری یہ بہنیں اوربیٹیاں صرف اس لئے سرکاری ہسپتالوں میں آتی ہیں کہ یہ مریضوں کی کوئی خدمت اوردیکھ بھال کر سکیں۔ انہیں اپنوں کی شادی بیاہ کاکوئی پتہ چلتاہے اورنہ ہی اپنوں کے جنازوں کی ان کوکوئی خبرہوتی ہے۔ ان کااکثروقت ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ ہی گزرجاتاہے ۔ سردی ہو یا گرمی، روزے ہوں یاعید،آزادی کاجشن ہوں یا اپنوں کاکوئی ماتم،ان کے لئے ہرحال میں ہسپتال پہنچنااورمریضوں کی دیکھ بھال کرنالازمی اورضروری ہوتا ہے۔ کرونا جیسی وبا کے دوران بھی جہاں ایک وقت میں سرکار کی جانب سے ہرفردکاگھرتک محدود رہنا فرض کردیاگیاتھااس وقت بھی ہسپتال پہنچنااورڈیوٹی سرانجام دینا ان کے لئے فرض عین قرار دیا گیا تھا۔ یہ نرسیں ہمارے کل کے لئے اپناآج قربان کررہی ہیں۔ہمیں نئی زندگی دینے کے لئے یہ اپنی زندگیاں تک دائوپرلگارہی ہیں لیکن اس کے مقابلے یابدلے میں ہم نے ان کوگالم گلوچ کے سواکیادیا۔؟تم کوئی مفت میں کام نہیں کررہی ہو، حکومت آپ کو ہزاروں کی تنخواہ دے رہی ہے۔یہ جملہ تو گویا ایجاد ہی ان بے چاریوں کے لئے ہوا ہے۔کیانرسزکے علاوہ اورلوگ سرکارسے بھاری تنخواہیں نہیں لے رہے۔؟کیاکبھی کسی نے کسی ایس ایچ اوسے کہاکہ تم کوئی مفت میں کام نہیں کر  رہے ہو، سرکارآپ کوبھاری تنخواہ دے رہی ہے۔ یہاں توجن کوگھرمیں بھی کوئی نہیں پوچھتاوہ بھی سرکاری ہسپتالوں میں جاکران نرسزپرپھراپناحکم جھاڑنے لگتے ہیں۔واللہ ان نرسزسے اپنے رویے اور سلوک کو دیکھیں توافسوس بہت ہی افسوس ہوتا ہے ہماری نظروں اورکتابوں میں تو اب اورآج بھی ان سے زیادہ بداخلاق ،بدتمیزاورکام چور اور کوئی نہیں۔ جو بداخلاق، جو بدتمیز اور جو کام چور ہیں آپ ایک نہیں ہزاربارانہیں برابھلاکہیں،انہیں روکیں اورٹوکیں لیکن خدارا اقلیت کے نام پر اکثریت کو اپنی منافقت کانشانہ نہ بنائیں۔ ہسپتالوں میں اگر سہولیات نہیں ،اگرادویات نہیں تو اس میں ان نرسوں کاکیاقصور۔؟آپ یقین کریں جس طرح معاشرے میں آپ کی عزت ہے اس سے کہیں زیادہ عزت اس ملک اورمعاشرے میں ہماری ان مائوں، بہنوں اوربیٹیوں کی بھی ہے۔ آپ ہسپتالوں میں خدمات سرنجام دینے والی اپنی ان مائوں، بہنوں اوربیٹیوں کی غلطیوں کی اصلاح ضرورکریں لیکن ہرمعاملہ اور ہر ذمہ داری ان کے سر نہ تھوپیں۔ یہ بھی آخرہماری مائیں ،بہنیں اور بیٹیاں ہیں۔جس طرح کی عزت آپ اپنی سگی ماں، بہن اوربیٹیوں کودیتے ہیں اسی طرح کی عزت عوام کی خدمت کرنے والی قوم کی ان مائوں،بہنوں اوربیٹیوں کوبھی دیںکیونکہ ہم جس اسلام کے نام لیواہیں اس اسلام کایہی حکم ہے۔

مصنف کے بارے میں