بیجنگ: واشنگٹن کی جانب سے امریکی اور تائیوان حکام کے درمیان تبادلوں پر عائد پابندی ختم کیے جانے کے بعد تائیوان کے دعویدار چین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے چین کے خلاف 'ناگوار' سلوک کرنے والے امریکی اہلکاروں کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین نے واشنگٹن کی جانب سے تائیوان کے لیے اس نرمی کی مذمت کی ہے جس کا اعلان امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور صدارت کے آخری ایام میں کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد سے واشنگٹن اور چین کے پہلے سے خراب تعلقات مزید خراب ہو گئے تھے۔
چین کے غصے میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کیلی کرافٹ نے تائیوان کے منصوبہ بند سفر کی منسوخی کے بعد گزشتہ ہفتے تائیوان کے صدر سوسائی انگ وین سے بات کی۔ ایک نیوز بریفنگ میں جب یہ سوال گیا کہ تائیوان کے ساتھ مصروفیات پر امریکا کو بھاری قیمت ادا کرنے کے چین اپنے عزم پر کیسے عمل کرے گا تو وزارت کی ترجمان ہوا چونئنگ نے کہا کہ امریکی حکام کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انہوں نے وضاحت کے بغیر کہا کہ امریکا کے غلط اقدامات کی وجہ سے چین نے تائیوان کے معاملے پر ناگوار سلوک کرنے کے ذمہ دار امریکی حکام پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چین کا کہنا ہے کہ تائیوان، امریکا کے ساتھ چین کے تعلقات میں سب سے اہم اور حساس مسئلہ ہے۔
اس سے قبل چین نے امریکی کمپنیوں پر تائیوان کو ہتھیار فروخت کرنے پر پابندیوں کا اعلان بھی کر چکا ہے تاہم یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ ان کو کیسے، یا کیا نافذ کیا گیا ہے۔ بیجنگ نے تائیوان کے لیے اسلحہ کی فروخت اور امریکی سینئر عہدیداروں کے دوروں سمیت تائیوان کے لیے بڑھتی ہوئی امریکی حمایت کا جواب دیتے ہوئے اس جزیرے کے قریب اپنی فضائیہ کے طیارے اڑانے سمیت دیگر فوجی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔
چین نے گزشتہ برس ہانگ کانگ اور واشنگٹن کی سابقہ برطانوی کالونی میں سیاسی آزادی کو روکنے کے الزامات پر واشنگٹن کی طرف سے عائد پابندیوں کے جواب میں ٹرمپ کی ری پبلکن پارٹی کے قانون سازوں سمیت 11 امریکی شہریوں پر پابندیوں عائد کی تھی۔ واضح رہے کہ واشنگٹن نے 1979 میں بیجنگ کی حمایت میں تائیوان سے سرکاری تعلقات منقطع کردیے تھے لیکن پھر بھی تائیوان کا سب سے بڑا اسلحہ فراہم کنندہ ہے۔چین کے ساتھ تجارتی محاذ پر کشیدگی کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے تائیوان کے لیے اپنی حمایت کو تقویت دینے کو ترجیح دی ہے۔