سینیٹر عرفان صدیقی صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے بھارتی شہر میسور میں کئی مہینوں سے محصور، حکومت پاکستان کی توجہ کی منتظر پاکستانی لڑکی سمیرا کا معاملہ ایوان بالا میں اٹھایا۔ سینیٹر صاحب کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ اب امید بندھی ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہو جائے گا اور سمیرا اپنے وطن پاکستان واپس آ سکے گی۔
سمیرا کا تعلق قطر میں مقیم ایک پاکستانی خاندان سے ہے۔چند برس قبل سمیرا کی ملاقات ایک بھارتی مسلمان لڑکے سے ہوئی۔ والدین کی مخالفت مول لے کر سمیرا نے بھارتی لڑکے سے شادی کر لی۔ سمیرا کا بھارتی شوہر اسے کسی نہ کسی طرح ویزے کے بغیراپنے ساتھ بھارت لے گیا۔ کچھ عرصہ بعد بھارت کے متعلقہ اداروں نے سمیرا اور اسکے شوہر کو گرفتار کر لیا ۔جلدہی سمیرا کا شوہر ضمانت پر رہا ہو کر گھر چلا گیا۔ لیکن بغیر ویزہ بھارت میں داخل ہونے کے جرم میں سمیرا پر مقدمہ چلا۔ اسے تین سال قیداور جرمانے کی سزا سنائی گئی ۔ جیل میں ہی سمیرا نے ایک بچی کو جنم دیا۔ شروع شروع میں سمیرا کاشوہر اس کیساتھ رابطے میں رہا مگر کچھ عرصہ بعد، اس نے سمیرا سے رابطہ منقطع کر دیا۔ تین برس کی قید بھگتنے کے بعد سمیرا جیل سے رہا ہوئی۔ اس نے اپنی ننھی بچی کے ساتھ اپنے ملک پاکستان واپس جانے کا ارادہ باندھا۔ اپنی پاکستانی شہریت کی تصدیق کے لئے پاکستان کے سفارت خانے اور دیگر حکام سے رابطہ کیا۔ لیکن اسے کوئی جواب موصول نہ ہوا۔ اب گزشتہ چھ ماہ سے سمیرابنگلور کے ایک مرکز ـ " سٹیٹ ہوم فار وومن" میں مقیم ہے اور ملک بدری کی منتظر ہے۔
پاکستانی سمیرا جب بھارتی جیل میں بے یار و مدد گار قید تھی تب بھارت کی ایک خاتون وکیل اور انسانی حقوق کی کارکن سہانا بسواپٹنا نے اسے قانونی امداد فراہم کی۔ وکیل خاتون نے سمیرا پر عائد ایک لاکھ روپے جرمانے کی رقم کا بندوبست کیا۔یہ رقم اس نے چندے کے ذریعے اکھٹی کی۔ایڈووکیٹ سہانا بسواپٹنا نے پاکستانی حکام سے رابطہ کر کے سمیرا کی شہریت کی تصدیق کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہی۔سفارت خانے سے مایوسی کے بعد وکیل خاتون نے بی بی سی کے توسط سے سمیرا کا پیغام پاکستان تک پہنچایا۔
یہ خبر مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کی نظر سے گزری تو انہوں نے کچھ تحقیق کی اور یہ معاملہ ایوان بالا میں اٹھایا۔ سینٹ میں تقریر کے بعد یہ معاملہ پاکستانی میڈیا پر گونجنے لگا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ سینٹ اور میڈیا میں زیر بحث آنے کے باوجود حکومت پاکستان اور وزارت خار جہ نے سمیرا کی کوئی خیر خبر نہیں لی۔لہذا اس معاملے پر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ سینیٹر عرفان صدیقی کے بار بار توجہ دلانے کے بعد چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ کو پابند کیا ہے کہ وہ اس معاملے پر ہونے والی پیش رفت پر روزانہ کی بنیاد پر سینٹ کو آگاہ کریں۔
سمیرا پر جو افتاد ٹوٹی اسے سن کر دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ اس سارے قضیے نے بہت سے سنجیدہ سوالوں کو جنم دیا ہے۔ایک اہم سوال یہ ہے جب سمیرا اپنی ننھی بیٹی سمیت بے بسی کی زندگی بسر کر رہی تھی۔ جب وہ قانونی امداد کی منتظر تھی تو ۔ جب ایک بھارتی وکیل اس کے لئے جرمانے کا بندوبست کرنے کیلئے چندہ اکھٹا کر رہی تھی۔ تب حکومت پاکستان اس سارے معاملے سے کیوں لا علم تھی؟اس وقت پاکستان کی وزارت خارجہ کہاں سو رہی تھی؟ بھارت میں موجود پاکستانی سفارت خانہ اور اسکا عملہ کیوں بے حسی کی تصویر بنا ہوا تھا؟ موجودہ حکومت بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لئے ہمدردی کی دعویدار ہے۔تحریک انصاف اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کی سہولت دینے کی حمایت کرتی رہی ہے۔ عمران خان اپنی تقاریر میں تواتر کے ساتھ بیرون ملک سے آنے والی ترسیلات زر کا تذکرہ کرتے ہیں۔ پاکستان سے باہر بسنے والوں کو ملک کا اثاثہ قرار دیتے ہیں۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی بیٹی سمیرا بھارت میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر تی رہی، لیکن حکومت پاکستان عالم بے خبری میں رہی۔ یہی حال وزارت خارجہ اور بھارت میں قائم پاکستانی سفارت خانے کا تھا۔
پاکستان کی وزارت خارجہ نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ مضبوط انتظامی ڈھانچہ رکھتی ہے۔ افسر شاہی کے ذہین و فطین افسران دفتر خارجہ میں تعینات ہوتے ہیں۔ یہ سرکاری بابو بھاری بھرکم تنخواہیں وصول کرتے ہیں اور دیگر سہولیات بھی۔ لیکن جب کارکردگی کی باری آتی ہے تو نتائج حوصلہ افزا نہیں ہوتے۔مثال کے طور پر مسئلہ کشمیر کو دنیا بھر میں اٹھانے کا معاملہ ہو یا بھارتی افواج کے کشمیریوں پر مظالم دنیا کے سامنے رکھنے ؎ہوں،وزارت خارجہ دنیا کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ جواز دیا جاتا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں، بھارت نہایت طاقتور ملک ہے اور اس کا نیٹ ورک دنیا بھر میں پھیلا ہوا ہے۔مسئلہ فلسطین پر بھی یہی تاویل دی جاتی ہے کہ ہم اسرائیل کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں۔
فاٹف کی مثال لے لیں۔گزشتہ چار برس سے ہماری وزارت خارجہ، پاکستان کے سر پر لٹکتی فاٹف کی تلوار سے نجات پانے اور پاکستان کا نام گرے لسٹ میں نکالنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ چلیں یہ تو بڑے بڑے معاملات ہیں۔ مان لیا کہ بھارت، اسرائیل اور یورپی یونین جیسے طاقتور ممالک کے مقابلے میں ہم بے بس ہیں۔ لیکن یہ کیا بات ہوئی کہ ایک نوجون پاکستانی خاتون بھارت میں امداد کے لئے سسکتی رہے اور وزارت خارجہ کو خبر ہی نہ ہو۔ سمیرا کی بھارتی وکیل سہانا بسواپٹنا نے پاکستانی حکام سے بارہا رابطہ کیا، تو اسے کوئی جواب کیوں نہیں دیا گیا؟سوال یہ ہے کہ سمیرا کو پاکستانی شہریت کا تصدیقی پرچہ دینے میں کیا امر مانع تھا؟
مزید دکھ کی بات یہ ہے کہ جب سمیرا کا قصہ بی۔بی۔ سی نے نشر کیا۔ تب بھی حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ جب سینیٹر عرفان صدیقی نے یہ معاملہ سینٹ میں اٹھایا۔ تب ارباب اختیار نے سمیرا سے رابطہ کرنے کی زحمت نہ کی۔ جب میڈیا اس معاملے پر چیختا رہا، تب بھی کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔برسوں سے ہمیں یہ پٹی پڑھائی جا رہی ہے کہ بھارت ہمارا ازلی دشمن ہے۔ اس دشمن ملک میں قائم سفارت خانے کو دیگر ممالک میں قائم سفارت خانوں سے زیادہ متحرک ہونا چاہیے۔سمیرا کے معاملے میں پاکستانی سفارت خانے کی خاموشی مجرمانہ غفلت ہے۔
یہ کالم لکھ رہی ہوں تو اطلاع آئی ہے کہ وزارت داخلہ کی ہدایت پر نادرا نے تصدیق کر دی ہے کہ سمیرا پاکستانی شہری ہے۔ کاش سمیرا کو اس اذیت سے نہ گزرنا پڑتا، جس سے وہ گزشتہ کئی ماہ سے گزر رہی ہے ۔ سمیرا کو اپنی شہریت کی تصدیق کے لئے کسی سینیٹر عرفان صدیقی کو تقاریر نہ کرنا پڑتیں اور چیئرمین سینٹ کو رولنگ نہ جاری کرنا پڑتی۔ لیکن اللہ کا شکر اب یہ معاملہ حل ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ دعا ہے کہ سمیرا اپنی بیٹی کے ساتھ خیر وعافیت سے وطن واپس پہنچے۔
تاہم سمیرا واپس آ جائے تب بھی اس نے پاکستانی حکام کی غفلت بلکہ بے حسی کی وجہ سے جو اذیت کاٹی ہے کیا ذمہ داران سے ان کی غفلت کی جواب دہی ہو گی؟ کیا کوئی ایسا ہدایت نامہ سفارت خانوں کو جاری کیا جائے گا کہ مستقبل میں کوئی پاکستانی شہری اس اذیت سے نہ گزرے ، جس سے سمیرا گزری ہے۔ سمیرا کے ایشو کو سن کر یہ خیال بھی آتا ہے کہ نجانے کس کس ملک کے کس کس حراستی اور ریاستی مرکز میں نجانے کتنے پاکستانی اسی طرح بے یار و مدد گار پڑے حکومت پاکستان کی توجہ سے منتظر مایوسی کی زندگی گزار رہے ہوں گے۔ لازم ہے کہ حکومت پاکستان اور وزارت خارجہ متحرک ہوں۔ دوسرے ملکوں میں قید پاکستانیوں کے اعداد و شمار حاصل کرئے ۔ اور انہیں وطن واپس لانے کا اہتمام کرئے۔
میسور میں محصور سمیرا۔۔!
09:04 AM, 18 Feb, 2022