نجانے اس بد قسمت باپ کے بچوں کی کیفیت اُس وقت کیا ہو گی جب انھیں یہ معلوم ہوا ہو گا کہ ان کا ابو انکی پھوپھی سے ملنے اس کے گائوں گیا، اورانسان نما حیوانوں نے اس کو درخت سے باندھ کر پتھروں اور اینٹوں سے اتنا تشدد کیا کہ موت کی نیند سو گیا، ایک لمحہ کے لئے اسکی بیچارے بے بسی کو چشم تصور میں لائیں تو کلیجہ منہ کو آتا ہے ،گو شت پو شت کے لوگ ایک انسان کو اپنی دانست میں رب کی رضا کے لئے جان سے مار رہے تھے، ہجوم میں کسی کو یہ خیال ہی نہ آیا کہ مارنے سے پہلے اسکا جرم ہی پوچھ لیں، اس کو صفائی کا موقع دیں، اپنی عدالت لگانے سے قبل قانون کی مدد لی جائے، کسی سے مشاورت کی جائے، کسی بزرگ سے ہی راہنمائی لی جائے،چند کلومیٹر پر ایک جید عالم دین کا مدرسہ ہے اسکو انکے حوالہ ہی کر دیا جائے، پولیس کے حوالہ کرکے معاملات اس کے سپرد کر دئے جائیں، آج کے گلوبل عہد میں اس قدر لاعملی اور لا پروائی اس بات کی غماز ہے مذہب کے نام پر قانون کو ہاتھ میں لیناریاست میں معیوب نہیںسمجھا جاتا۔
ابھی تو سیالکوٹ کے واقعہ کی باز گشت فضائوں میں تھی کہ تلمبہ کے نواح میں ایک اور بے گناہ فرد بپھرے ہجوم کے ہتھے چڑھ گیا ، اس کے ساتھ بھی ظالموں نے وہی سلوک کیا جو سری لنکن شہری کے ساتھ ہوا، بعض اطلاعات ہیں کہ متاثرہ فرد دن بھر شہر میں بھیگ مانگتا رہا، اس پر الزام تھا کہ اس نے قرآن مجید کی بے حرمتی مسجد میں کی تھی۔
اس کے ورثاء کا کہنا ہے کہ مشتاق نامی فرد ایک ذہنی بیماری میں مبتلا تھا، اس کے تین بچے ہیں، اسکی اس حالت کی وجہ سے اس کی زوجہ اس کو چھوڑ گئی تھی، اس کے خاندان نے اس کا علاج کرانے کے لئے اپنی جائیداد تک بیچ دی ہے مگر وہ صحت یاب نہ سو سکا، اور اکثر گھومتا پھرتا رہتا اور ہر کسی سے سو روپیہ مانگتا تھا، اس پرظالمانہ تشدد کرنے والے علاقہ غیر سے تعلق نہیں رکھتے تھے یہ اس وسیب کے تھے پھر یہ وقوعہ دیہات میں پیش آیا جہاں لوگ ایک دوسرے کو بخوبی جانتے ہیں، اس کے باوجود کسی نے اس ذہنی معذور کے بارے میں جاننے کی دانستہ کاوش کیوں نہ کی؟ بلا تحقیق اس پر تشدد کرنے سے قبل مساجد میں اس کے بارے میں اعلانات ہوتے تو اس بے بس انسان کی زندگی بچ جاتی۔
شرکاء میں سے کوئی جس کے سامنے اسی حالت میں اس کا بھائی، باپ، بیٹا ہوتا تو کیا وہ اس کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے جو اس کے ساتھ ہوا؟ ہجوم میں سے اگر چند لوگ اسے بچانے کی کاوش کر رہے تھے تو انکی بات کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟ جب پولیس نے اسے بچانے کی کوشش کی تو اس کے حوالہ کیوں نہ کیا گیا، ان پر غالب جذبات کا سبب یہ ہے کہ یہاں اس نوع کے ہجوم میں شامل افراد کو اپنے جرم کی سنگین ترین سزا نہیں ملی ہے اسی لئے اس قماش کے لوگوں کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔
جب موقع تھا کسی نے اس خاندان سے ازراہ ہمدردی اس فرد کے بارے میں جاننے اور اسکی مدد کرنے کی کوئی جسارت کی؟ اس کی زوجہ کے مسائل اور بچوں کے حوالہ سے کوئی خدمت انجام دی ؟مگر جب انکا باپ انکے سامنے آگیا توسارے اس پر پل بڑھے، اگرچہ وہ فرد ذہنی معذور تھا مگر وہ بھی کسی کا باپ، کسی کا شوہر، کسی بہن کا بھائی ،کسی ماں کا لاڈلا تو تھا۔
جب اس کے بھائیوں تک اس کی اذیت ناک موت کی خبر پہنچی ہو گی تو انکی حالت کیا ہو گی، ہجوم میں شامل کوئی فرد خود کو اس مقام پر رکھ کر فیصلہ تو کرے کہ سنگ باری کرنے کا عمل درست تھا یا غلط، کیا مرحوم اس ریاست کا شہری نہ تھا، کیا اسکومساوی انسانی حقوق حاصل نہ تھے کیا ریاست کی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ اس فرد کی جان کا تحٖفظ کرتی۔اس طرح کے افراد کی حفاظت کے لئے سرکار نے متاثرہ خاندان سے مل کر کوئی طریقہ کار بنا رکھا ہے؟
مرحوم کے بچے اور بیوی ساری زندگی اس سانحہ کو بھلا پائیں گے، اگر اس نوع کا بہیمانہ تشدد شرکاء میں سے کسی کے باپ پر کیا جاتا تو انکا رد عمل کیا ہوتا، جس قرآن کی آبرو کے لئے وہ ’’جہاد‘‘ کر رہے تھے اس میں ہی رقم ہے کہ کسی افواہ پر یقین کرنے سے پہلے اسکی تصدیق کر لیا کرو مبادا کہ تم کسی کے ساتھ زیادتی کے مرتکب نہ ہوجائو۔
روایت ہے کہ ایک نو مسلم فرد نے مسجد ہی میں پیشاب کر دیا، ظاہر ہے صحابہ کرامؓ کے لئے یہ فعل غیر متوقع تھا وہ اس کو مارنے کے لئے دوڑے آپؐ نے انکو روک دیا، اور حکم دیا کہ اس پر پانی بہا دو، بعد ازاں محسن انسانیت نے اس کو مسجد کے آداب کے بارے میں بتایا۔
افسوس یہ ہے کہ واقعہ ملک کی ایک معتبر معزز مذہبی شخصیت مولانا طارق جمیل کے علاقہ میں پیش آیا ،موصوف خود اعتراف کرتے ہیں کہ وہ بھر پور کوشش کے باوجود دو فیصد افراد کو نمازی نہ بنا سکے، انکا کہنا تھا کہ ہجوم نماز کے لئے تو مسجد میں داخل نہیں ہوتا مگر ایک بے گناہ انسان کی جان لینے امڈ آیا تھا۔مولانا کے اس موقف کے بعد تو یہ توقع رکھنا ہی عبث ہے کہ اس ہجوم میں قرآن کا فہم رکھنے والے بھی ہوں گے، جس ہجوم کو شعائر اسلام کا شعور ہی نہیں اسے کیا معلوم کہ قرآن کا عملا احترام کس طرح کیا جاتاہے، ایسی ریاست جسکی غالب آبادی نا خواندہ ہو وہاں تو اس نوع کے سانحات کے وقوع پذیر ہونے کا خدشہ ہر وقت موجود ہے۔ نجانے کب کہاں کوئی فرد کسی بھی جھتے کے ہتھے چڑھ جائے۔
عدم برداشت کا کلچر آخر کب تک دراز ہوتا رہے گا؟ ہماری قومی سیاست سے لے کر اداروں تک سب اسکی عملی تصویر بنتے جا رہے ہیں۔ ،بعض سماجی گروہ جنرل ضیاء الحق کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں، کچھ مذہبی پیشوائوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں، لیکن سری لنکن شہری کی موت پر ہر مذہبی طبقہ پریشان تھا سب نے اسکی مذمت کی تھی، تلمبہ کے واقعہ کے پیچھے بھی کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھی، لیکن عدم برداشت کلچر کو پروان چڑھانے میں انھیں قطعی بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔
جس انداز میں مشتاق نامی فرد مارا گیا یہ سوچ کر ہی عام آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، جہاں مجرموں کو قرار واقعی سزادینا لازم ہے، وہاں ریاست اسکے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری اٹھا کر انکی کچھ تو اشک شوئی کرے، اس خاندان کے لئے یہ بڑا سہارا ہوگا جس نے مرحوم کے علاج کے لئے اپنی جائیدا د تک بیچ ڈالی ہے۔ کیا ہجوم اللہ سے زیادہ انصاف پسندتھاجس نے نہ تو نابالغ پر کوئی فرائض عائد کیے ہیں نہ فاتر العقل کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔
جب تلک قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کونشانہ عبرت نہیں بنایا جاتا، اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے، اللہ اور رسولؐ کے نام پر جہالت پھیلانے والے کبھی بھی اسلام کے اچھے سفیر نہیں بن سکتے، چند افراد کے سیاہ کارنامے اسلام کی حقانیت کو داغ دار کرنے کا سبب ہیں اور اس کے ماتھے پر بد نما داغ ہیں۔