اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبا ئو گے
انڈیا کی ریاست کرناٹک میں 19 سالہ بچی مسکان نے ایک مشتعل ہجوم کے سامنے جو نعرہ تکبیر بلند کیا اب اس کی گونج دنیا بھر میں سنائی دے رہی ہے۔ مسکان نے اپنے تعلیمی ادارے کے باہر حجاب پہننے پر ہراساں کیے جانے کے باوجود جگہ چھوڑ کر ہٹنے کے بجائے ہجوم کے سامنے بہادری سے اللہ اکبر کے نعرے لگائے جس کے بعد مسکان سے اظہار یکجہتی کے لیے انڈیا اور پاکستان میں اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہورہا ہے۔یہ نعرہ کوئی نیا نعرہ نہیں بلکہ دنیا بھر میں ہر سیکنڈ میں ہر گلی ، ہر شہر ہر ملک سے دن میں پانچ بار یہ صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر چاہے یہ ٹرینڈ مسکان کے نعرے کے بعد بنا ہے مگر مسلمانوں کے ایمان کو جگانے کے لیے یہ نعرہ تقریباً چودہ سو سال سے بلند ہوتا آرہا ہے۔ یہ نعرہ تکبیر اس وقت سے آج تک ہر محاذ پر ہماری حفاظت کرتا آرہا ہے چاہے وہ میدان جنگ ہو ، کوئی بھی جانفشانی کا کام ہو ، کسی کھیل میں کامیابی کے حصول کے لیے حتمی جدوجہد کا موقع ہو یا پھر کسی بلند چوٹی کو سر کرلینے کے بعد کا منظر ہو۔ یہ نعرہ ہمیں جدوجہد سے کامیابی تک کی راہ دکھاتا ہے۔ہمیں منزلوں سے روشناس کراتا ہے۔ یہ نعرہ سب مسلمانوں کے دلوں اور زبانوں کا نعرہ ہے۔یہ نعرہ ہماری روحوں کو ودیعت کردہ ہے۔ ہندو انتہا پسندوں نے جب مسکان کو ہراساں کیا تو اس نے ڈرنے کے بجائے وہی کیا جو اس کی روح کو ودیعت کردیا گیا تھا۔
زندگی کے کسی بھی مشکل ترین مقام پر آزما لیں آپ اس ذکر اور اس نام کی طاقت سے بڑے سے بڑے دشمن کو زیر کرسکتے ہیں بس تھوڑا توکل اور استقامت ضروری ہے۔ یہ نعرہ ہر مسلمان کا شیوہ بھی ہے اور یقین بھی۔
اللہ اکبر کا فلسفہ کیا ہے ؟
اللہ اکبر کے فلسفیانہ معنی یہ ہیں کہ اللہ وہ ہے جس سے بڑا کوئی وجود انسان کی قوت خیال سے باہر ہو۔یعنی اللہ وہ ہے کہ جس سے بڑا کوئی وجود انسان
تصور نہ کر سکتا ہو۔
اس نعرے کی للکار کے بعد ہندو بنیا اپنی اصلی اوقات دکھانے لگا ہے۔ حجاب کے خلاف چلائی جانے والی تحریک اب منظم ہوتی جارہی ہے اور ہندو تنظیموں نے طالبعلموں کو زعفرانی شال پہننے کی ہدایت کر دی ہے۔
مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر دائیں بازو کی جماعتوں نے طالبعلموں کو ہندو مذہب کا پرچار کرنے کی ہدایات دے دیں۔ کرناٹکا کالج کی طالبات کو کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت نہ ملنے کے بعد شروع ہونے والے احتجاج کے بعد دائیں بازو کا ایک گروپ طالبات کو زعفرانی رنگ کا اسکارف پہننے کے لیے کہہ رہا ہے۔
مسکان والے واقعے میں بھی زعفرانی شالیں پہنے سیکڑوں ہندو طلبا ایک نہتی حجاب مسلمان طالبہ کو ہراساں کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ مگر مسکان نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندو طلبا کے نعروں کا جواب ’اللہ اکبر‘ کے نعروں سے دیا اور نہایت بے خوف انداز میں اپنے راستے پر چلتی رہی۔
اس کے بعد دیکھا جاتا ہے کہ کئی جگہ طالبعلموں کے گروپس کا آمنا سامنا ہوتا ہے، ایک گروپ زعفرانی شالیں اوڑھے ہے اور دوسرا گروپ حجاب میں۔
زعفرانی شالیں اوڑھنے والے طالبعلموں کو کالج میں داخلے کی اجازت مل جاتی ہے لیکن حجاب پہنی ہوئی نوجوان لڑکیوں کو دروازے کے باہر روک لیا جاتا ہے۔
ایک کالج سے شروع ہونے والا تنازع جنگل کی آگ کی طرح پھیلا اور کئی دیگر کالجز نے حجاب پہنی طالبات کو داخلے سے منع کیا۔
کرناٹکا کے پانچ اضلاع کے کالجز میں زعفرانی شالیں پہنے طلبا کی جانب سے مظاہرے کیے گئے اور مسلمانوں کے احتجاج کے دوران چھری چاقو نکالنے پر دو لڑکوں کو گرفتار کیا گیا۔
کرناٹکا کی ہائیکورٹ میں آج صبح حجاب پر پابندی کے خلاف 5 طالبات کی جانب سے درخواست کی سماعت شروع کی ہے جس میں درخواست گزار طالبات کا کہنا ہے کہ حجاب ان کے مذہب کا حصہ ہے۔
دوسری جانب زعفرانی رنگ کی شال، پگڑیوں اور دوپٹے لیے ہندو اسے اپنی برتری کی علامت قرار دے رہے ہیں۔ اسے ہندوتوا کا رنگ کہا جاتا ہے اور سنگھ پریوار والے اسے اپنا نشان سمجھتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر
حجاب میری شان کے جواب میں پہچان کا ذکر ہو رہا۔ اور ’بھگوا میری شان‘
مسلمانوں کے حجاب کے خلاف یہ تحریک نئی ہے نا یہ نفرت آج کی۔ اس سے پہلے بھی کئی ملکوں میں طالبات کے حجاب پر پابندی کو باقاعدہ سرکاری قوانین میں شامل کیا گیا جس میں فرانس سرفہرست ہے۔ وہاں تو سکارف یا حجاب پہننے والی خواتین کو بھاری جرمانے بھی عائد کیے گئے۔
مذہبی مقامات اور مذہبی علامتوں کے حوالے سے سیکولر ملک فرانس ایک عرصے سے تنازعات کا شکار ہے اور یورپ کی سب سے بڑی مسلم اقلیت فرانس میں ہی رہائش پذیر ہے۔
فرانس نے 2004 میں سرکاری سکولوں میں اسلامی اسکارف پہننے پر پابندی عائد کردی تھی، 2010 میں اس نے گلیوں، پارکوں، پبلک ٹرانسپورٹ اور انتظامی عمارتوں جیسے عوامی مقامات پر نقاب کرنے پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔
مگر اللہ اکبر کی شان دیکھیں کہ دو سال پہلے کرونا وبا سے جو تباہی سامنے آئی اسی ملک میں ماسک نہ پہننے والوں کو بھاری جرمانے عائد کیے گئے۔ مسلمان عورتوں کے نقاب کو اتروانے کا کیا نتیجہ ہوا آخر مرد اور عورتیں سب منہ چھپائے پھرتے ہیں۔
یہ اللہ اکبر کا فلسفہ ہے بیشک اللہ سب سے بڑا ہے وہ سب سے بڑا منصف ہے وہ بہت سخت حساب لینے والا ہے وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔
اس لیے بھارت میں جو کچھ ہورہا ہے وہ عنقریب اس کی اپنی تباہی کا پیش خیمہ ہوگا وہاں راہ چلتی لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے ریپ کیسز میں ہونے والا اضافہ اور ان کے اندر بڑھتا ہوا عدم تحفظ کا احساس، طبقاتی ناہمواری کی سیاہ رات اب ختم ہونے کو ہے۔ ایک دن اس کی حکومت مجبور ہوجائے گی کہ حجاب پہننا تمام مسلم و غیر مسلم خواتین کے لیے لازمی قرار دیدے۔ کیونکہ بے شک اللہ سب سے بڑا ہے۔