طالبان کے اقتدار میں آنے کے باوجود پاک افغان سرحد پر امن قائم نہیں ہو سکا بلکہ گزشتہ دو ماہ کے دوران ایک سے زائد مقامات پر دونوں ملکوں کے حفاظتی دستوں میں خونریز تصادم ہو چکا ہے مستقبل میں مزیدبھی ایسے کسی امکان کورَد نہیں کیا جا سکتا اور مشرقی سرحد کی طرح اب پاکستان کو مغربی سرحد پر بھی حفاظتی دستے تعینات رکھنا پڑیں گے نیزطالبان کاطرفدارہونے کے باجود مستقل سرحدی لکیر کو تسلیم نہ کرنے جیسے مسائل کا سامنا رہے گا حالانکہ یہ مسائل ماضی میں حل کیے جا چکے پھربھی ڈیورنڈلائن اور آمدرفت جیسے معاملات کوجان بوجھ کرمسائل بنا کر پیش کیاجاتا ہے حقیقت میں یہ مسائل ہیں ہی نہیں بلکہ محض سوچ کا فرق ہے اوریہ سوچ کاہی فرق دوبرادر ممالک کو ایک دوسرے سے بدظن کرنے کا باعث ہے حالانکہ یہ سوچ کا فرق دشمن کا بچھایا جال ہے جس کا مقصد دوہمسایہ اسلامی ممالک کو ایک دوسرے سے دور کرنا اور مدمقابل لاناہے اگر طالبان جلد دشمن کے بچھائے جال سے نہ نکلے تونہ صرف دونوں ملک ایک دوسرے سے دورہوں گے بلکہ دونوں طرف مزیدجانی و مالی نقصان ہوتا رہے گا جس سے انھیں تسلیم کرنے کے امکانات کم ہوتے جائیں گے اِس لیے ضروری ہے کہ پہلی ترجیح سرحدوں پر امن کو بنائیں تاکہ پاکستان یکسوئی سے اُن کی وکالت کر سکے طالبان قیادت کو جھڑپوں جیسے واقعات روک کر کسی ایسے قابلِ قبول حل کی طرف آنا پڑے گا جو دونوں طرف کی عوام کے مفاد میں ہو اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر دونوں ملک مل کر شرپسندوں کے خلاف طاقت کا مظاہرہ کریں کیونکہ آئے روزکی سرحدی جھڑپیں نہ صرف آمدو رفت میں رکاوٹ کا باعث ہیں بلکہ تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں ایسے حالات میں جب افغانستان کی زیادہ تر تجارت براستہ پاکستان ہوتی ہے یہ سرحدی مسائل ایک دوسرے کو دور کرنے کے ساتھ تجارتی اور معاشی ترقی کی راہ بھی دشوار کردیں گے۔
گیارہ دسمبر اتوارکے دن فغانستان کے اندر سے پاکستانی علاقے پر وقفے وقفے سے بھاری ہتھیاروں سے گولہ باری ہوئی جس نے آٹھ پاکستانی شہریوں کی جان لے لی جبکہ سترہ افراد زخمی ہوئے
جس پر پاکستان نے احتجاج کیا اس واقعہ پر بحث کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس بھی ہوا مگروزیرِ دفاع خواجہ آصف نے پالیسی بیان دینے کی بجائے ایوان کو یہ کہہ کر مطمئن کرنے کی کوشش کی کہ طالبان نے واقعہ پرمعافی طلب کرتے ہوئے آئندہ ایسے واقعات نہ ہونے کی یقین دہانی کرائی ہے مگرکرائی گئی یقین دہانی کے اثرات ایک ہفتہ بھی نہ رہے پندرہ دسمبر جمعرات کو پھر ویسی ہی جارحیت کا مظاہرہ دیکھنے میں آیاایسے واقعات سے مزید یقین دہانیوں پر اعتماد کرنے کی بجائے یہ پیغام ملتاہے کہ افغان حکام پر آنکھیں بند کرکے اعتماد کرنے کی بجائے سرحد ی حفاظتی نظام کو سخت کیا جائے کیونکہ اِس میں اب کوئی ابہام نہیں رہا کہ افغان عبوری حکومت کی امن پالیسی سوالیہ نشان بن گئی ہے اور وہ سرحدی واقعات کو سنجیدہ نہیں لیتی بلکہ ایسے واقعات پر زیادہ تر پاکستان کو نظرانداز کرنے یاپھر اپنے موقف پر قائل کرتی محسوس ہوتی ہے طالبان گزشتہ برس سے ایسے واقعات کے تدارک کی یقین دہانیاں کراتے چلے آرہے ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کررہے اور نہ صر ف پاکستانی چوکیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے بلکہ اب تو شہری آبادی کو بھی نشانہ بنایا جانے لگا ہے جس میں زیادہ تر افغان بارڈر فورس ملوث ہوتی ہے اِس کا مطلب ہے کہ سرحدی جھڑپیں افغان عبوری انتظامیہ کی مرضی کے مطابق ہیں لہذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ نہ صرف افغان سیکورٹی فورسز کو داندن شکن جواب دیا جائے بلکہ طالبان کو بھی یہ باور کرایا جائے کہ اُن کی بقا پاکستان سے مشروط ہے اور اگر ایسے واقعات کا سلسلہ ختم نہیں کرتے تو پاکستان نہ صرف افغان حکام کی عالمی سطح پر وکالت کا سلسلہ روک سکتاہے بلکہ تعلقات پربھی نظرثانی کرنے پر مجبور ہوگا۔
بلوچستان کا سرحدی علاقہ چمن اِس حوالے سے نہایت اہم ہے کہ یہ ا فغانستان آنے جانے کا ایسا اہم راستہ ہے جس کے ذریعے سبزیاں، ادویات سمیت دیگر کھانے پینے کے سامان کی سپلائی روزانہ کی بنیاد پرقندھار سمیت سات قبائلی اضلاح کو ہوتی ہے سامان کی یہ ترسیل آئے روز ہونے والی جھڑپوں سے رُک جاتی ہے طالبان مت بھولیں کہ افغانستان کے نصف حصے کو بھوک و افلاس کا سامنا ہے تو سرحدی جھڑپوں کی اجازت دیکر وہ اپنے ہی عوام کی مشکلات میں اضافہ کررہے ہیں ایسا طرزِ عمل کو ہر گز دانشمندانہ نہیں بلکہ مسائل کا شکاراپنی عوام کو مزید مسائل کی دلدل میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔
پاک افغان سرحدی جھڑپیں طالبان کی طاقت اورخلوص کا بھانڈہ پھوڑ رہی ہیں اور یہ خیال تقویت پکڑنے لگا ہے کہ یا توطالبان میں اتنی سکت ہی نہیں کہ وہ شرپسند عناصر پر قابو پا سکیں یا پھر ظاہری خلوص کے باوجود اُن کی آرزو بھی پاکستان کو نقصان پہنچانا ہے اسی لیے ہر سرحدی جھڑپ پر وقتی یقین دہانی کراکر معاملادبانے کی کوشش کرتے ہیں مگر ایسا رویہ زیادہ دیر برداشت نہیں کیا جا سکتا جلدہی پُرتشدد واقعات کا سلسلہ روکا نہ گیا تو دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کا متاثر ہونا خارج ازامکان نہیں جب دنیا طالبان کوپوری طرح قبول کرنے پرتیار نہیں اِن حالات میں پاکستان سے دوری اُن کے لیے مزید مسائل کا موجب بنے گی ساری دنیا میں بین الاقوامی سفر کے لیے پاسپورٹ کا استعمال ہوتا ہے پرویز مشرف دور میں اِس پربھی افغان حکام سے کشیدگی پیداہو گئی بعدازں طویل بات چیت کے بعدپاسپورٹ پر مخصوص راستوں سے آنے جانے پر قائل کیا گیا حالانکہ ملا عمر کا موقف تھا کہ افغانستان اور پاکستان دونوں برادر ہمسائے ہیں جن کے درمیان کسی سرحدی لکیر کاکوئی جوازہی نہیں۔
پاکستان نے کبھی افغانوں کی مدد میں کنجوسی نہیں کی سوویت یونین نے جارحیت کی تو نہ صرف آزادی کی جنگ لڑنے والوں کا ساتھ دیا بلکہ لاکھوں افغان مہاجرین کوآنے کی عام اجازت دی جن کی اکثریت آج بھی پاکستان میں ہے یہ احسان فراموش مہاجرین کھیل کے میدانوں میں پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے اور اگست میں پاکستانی پرچم کی بے حرمتی کرنے اور خلاف نعرے بازی سے دل آزاری کرتے ہیں نائن الیون کے بعد بھی پاکستان دنیاکا واحد ملک ہے جس نے افغانوں کی ہر ممکن مدد کی اگر ایسا نہ ہوتا تو آج افغان طالبان کے حالات مختلف ہوتے اور وہ آج اقتدار میں نہ ہوتے مگر تعاون،مدد اور خلوص کاجواب سرحدی جھڑپوں کی صورت میں دے کر اپنے بڑے بھائی کو بددل کیاجارہا ہے اُن کے لیے بہترہے کہ جتنا جلد ہو سکے پُرتشدد سرحدی کاروائیاں روکیں تاکہ دونوں طرف کے عوام میں نہ صرف روابط برقرار رہیں بلکہ معاشی و تجارتی سرگرمیاں فروغ پائیں۔