عمران خان کو ایک طرف رکھ کر ملک کے دوسرے مسائل پر بات کریں تاکہ یہ سمجھا جا سکے کہ پوری قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے کیوں لگایا جا رہا ہے۔ ملک میں ایک ہیجان برپا ہے۔ ایسے میں ملک کیسے آگے بڑھے گا۔ سوشل میڈیا سے لے کر مین سٹریم میڈیا، ہر طرف عمران خان کا رونا ہی رویا جا رہا ہے۔ کوئی اسے مہاتما بنا کر پیش کر رہا ہے اور کوئی اس کے بخیے ادھیڑنے میں مصروف ہے۔ کبھی پنکی پیرنی کی کوئی آڈیو لیک آ جاتی ہے اور کبھی کچھ اور۔ غرض یہ کہ پاکستان کی پوری سیاست اور معاشرت صرف اسی ہنگامے تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہی عمران خان کی کامیابی ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ اقتدار میں آیا تھا۔ صبح شام ایک رٹ لگائی گئی اور پھر جن لوگوں نے ہوا بنانی تھی انہوں نے دست شفقت رکھا اور ملک میں یہ بات زبان زد عام ہو گئی سب کو دیکھ لیا اس کو بھی آزما کر دیکھ لیں۔ تجربہ کرنے والے آج اپنی پشت سہلا رہے ہیں۔ پچھتا رہے ہیں مگر اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ کہا گیا کہ ہم نیوٹرل ہیں اور میں یہ بات بہت پہلے کہہ چکا ہوں کہ صرف نیوٹرل ہونے کا کیا فایدہ جب آپ نے پورے نظام کا ستیاناس کر دیا۔ سولہ دسمبر گذر گیا، اس سانحے کی وجوہات جاننے کی کوشش نہیں کی کہ ایسا کیوں ہوا جب آپ جمہوریت کو چھڑی کے ذریعے چلائیں گے تو پھر سانحات رونما ہوں گے۔
ڈھاکہ میں بننے والی مسلم لیگ کے وارث آج لاہور اور لندن میں براجمان ہیں۔ ملک میں اتنی لیگیں بن گئی ہیں کہ حروف تہجی ختم ہو گئے ہیں اور ہر کوئی قائد اعظم کی مسلم لیگ سے اپنا تعلق جوڑتا ہے۔ ہم نام کے غازی ہمیشہ سے رہے ہیں کردار کے غازی بننے کی ہمت چنداں نہیں۔ اور کیون کر ہو کہ کردار کا غازی بننے کے لیے اصولوں کی سولی پر چڑھنا پڑتا ہے۔ یہ دھرتی بانجھ ہوتی جا رہی ہے اور یہاں صرف چوری کھانے والے مجنوں بچے ہیں۔ 1971 میں مغربی پاکستان سے علیحدہ ہونے والا مشرقی پاکستان آج بنگلہ دیش کی صورت میں موجود ہے اور سونار بنگلہ کے نعرے بلند ہو رہے ہیں اور ہم اپنے آپ کو ڈیفالٹ سے بچانے میں مصروف ہیں۔ بھوکے ننگے بنگالیوں جن سے ہم نے جان چھڑائی تھی آج اس خطے کی ابھرتی ہوئی اقتصادی طاقت بن گیا ہے اور یہ معجزہ محض دو تین دہائیوں میں رونما ہوا ہے۔ وجہ کیا ہے یہ جاننے کی ضرورت کسی نے محسوس نہیں کی۔ جب تک وہاں فوج اقتدار میں رہی ان کا حال بھی ہمارے جیسا ہی تھا لیکن جب وہاں پر سیاسی استحکام آیا انہوں نے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنا شروع کی۔ جرنیلوں نے ایک دن ریٹائر ہو کر گھر چلے جانا ہے لیکن سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ہمیشہ رہتی ہیں۔
جنرل باجوہ گھر جا چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کے لوگوں نے ان کے خلاف ایک ہنگامہ برپا کر رکھا ہے اور کیوں نہ ہو کہ پی ٹی آئی کے تن بدن میں جو روح موجود ہے وہ انہی کا کارنامہ ہے۔ ان کی چھتر چھایا میں یہ لوگ جوان ہوئے ہیں۔ ان کی تربیت کا اہتمام بخوبی کیا گیا اور آج وہ اپنی تربیت کے مطابق اپنا کام کر رہے ہیں۔ جنرل باجوہ نے چھڑی منتقل کرنے سے پہلے اپنی آخری تقریر میں گمنامی میں جانے کا اعلان کیا تھا مگر پی ٹی آئی انہیں گمنام نہیں ہونے دے گی۔ میں جنرل باجوہ کا ذکر کر رہا تھا۔ انہوں 1971 کو فوجی نہیں سیاسی شکست سے تعبیر کیا اور کہا کہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج بڑی بہادری سے لڑی اور یہ بھی فرمایا کہ وہاں پر تعینات فوجیوں کی تعداد تیس ہزار کے قریب تھی اور جو لوگ 90 ہزار فوجیوں کی بات کرتے ہیں وہ غلط ہے۔ جنرل باجوہ کو شاید یہ علم نہیں تھا کہ سانحہ مشرقی پاکستان جب رونما ہوا تو اس وقت بھی ملک پر فوجی جنتا کی حکومت تھی۔ جنرل یحیی خان کے دور میں وہ فصل کاٹی گئی جس کا بیج فیلڈ مارشل ایوب خان بو گئے تھے۔
1958 سے کے کر 1971 تک فوج ملک کے سیاہ و سفید کی مالک تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ مشرقی پاکستان کی سب سے بڑی جماعت بن کر آئی تھی اور اسے عددی اکثریت حاصل تھی تو ملک کے سربراہ اور فوجی کمانڈر کو کس نے روکا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کا اجلاس بلا کر اقتدار اس کے حوالے کرتا۔ وہ کیوں ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر آئندہ کے سیاسی سیٹ اپ میں اپنا کردار تلاش کر رہا تھا۔ حیرت ہے کہ ملک توڑنے والے پر کوئی مقدمہ نہیں چلا اور اسے باعزت طریقے سے رخصت کر دیا گیا۔ جنرل مشرف کا کیس تو ہمارے سامنے ہوا کہ کس طرح انہیں یہاں سے نکال کر باہر بھیج دیا گیا۔ مادر ملت کو کس طریقے سے ہرایا گیا کیا وہ نظام سیاستدانوں کا عطا کردہ تھا۔ مشرقی پاکستان میں لوگ مادر ملت کے ساتھ تھے اور صد حیف کہ مادر ملت پر بھی غداری کا لیبل لگا دیا گیا۔ شیخ مجیب الرحمان راتوں رات چھ نکات لے کر نہیں آگیا تھا اس نے سیاست میں رہ کر دیکھ لیا تھا۔ مغربی پاکستان جس طرح استحصال کر رہا تھا وہ بھی سب کے سامنے تھا۔ جب آپ نے سیاست کے دروازے ہی ان پر بند کر دیے تو وہ کہاں جاتے۔ مادر ملت کے ساتھ کھڑے ہونے والا مجیب الرحمان اندرا گاندھی کے ساتھ کیوں مل گیا۔ ہمارے ملک کی تاریخ سنہری نہیں شرم ناک ہے۔
فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا تھا مگر وہ سیاست کے میدان میں کود چکی تھی۔ فوجی حکمت عملی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ مشرقی پاکستان جو مغربی پاکستان سے ایک ہزار میل دور تھا اور خشکی کے راستے بھارت سے گذرے بغیر وہاں تک رسائی حاصل نہیں تھی وہاں کے دفاع کے لیے فوج نے صرف تیس ہزار جوان تعینات تھے۔ کیا مشرقی پاکستان کا دفاع ہماری قومی ترجیحات میں موجود نہیں تھا۔ وہاں پر بھارتی اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے منظم انداز میں کونسا کام کیا گیا۔ کچھ بھی نہیں اور ہم ہر سال اس دن کو سانحہ مشرقی پاکستان کے طور پر منا کر چپ ہو جاتے ہیں۔ آج تک وہاں پر موجود بہاری جو پاکستان سے محبت کی وجہ سے اس معاشرے کا حصہ نہیں بن سکے کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ ان پر ملازمت اور تعلیم کے دروازے بند ہیں مگر ہم نے انہیں لانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔ غلام حیدر وائیں کے دور میں ایک کوشش ہوئی وہ بھی سرے نہ چڑھ سکی۔ بنگال کے کیمپوں میں موجود ہم ان لوگوں کو واپس نہ لا سکے لیکن دوسرے لاکھوں مہاجرین کی کفالت ہم کر رہے ہیں۔ وہ کھاتے بھی پاکستان کا ہیں اور پاکستان کو ہی گالیاں دیتے ہیں۔ واہ کیا سٹرٹیجی ہے۔
حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ کو سرکاری طور پر جاری کریں تو شائد لوگوں تک اس دور کے حالات پہنچ سکیں۔ ہم اپنے ماضی سے جان نہیں چھڑا سکتے لیکن ہم نے ماضی میں کو غلطیاں کی ہیں اس سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ لوگوں کو بندوق کے زور سے نہیں بلکہ دل اور دماغ سے بھی اپنے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ شیخ مجیب الرحمان نے 7 مارچ 1971 کو پلٹن گراؤنڈ میں جو تقریر کی تھی اسے ہمارے نصاب کی کتابوں میں شامل ہونا چاہیے تاکہ ہمیں علم ہو کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں نے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیوں کیا۔ پلٹن گراؤنڈ میں اس دن دس لاکھ کا اجتماع تھا جس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان نے متحدہ پاکستان کی 24 برس کی تاریخ اور اس عرصے کے دوران لگنے والے مارشل لاؤں کا تذکرہ کیا۔ اس کے فوراً ہی بعد انھوں نے اْس وقت کی صورت حال کا جائزہ پیش کیا۔انھوں نے شکوہ کیا کہ ’میں نے مطالبہ کیا تھا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 15 فروری (1971ء) کو طلب کیا جائے۔ اکثریتی جماعت کے راہنما کی حیثیت سے اْسے (جنرل یحییٰ کو) میری بات ماننی چاہیے تھی لیکن اس نے تاخیری حربے استعمال کیے۔ اقلیتی جماعت کے راہنما مسٹر بھٹو سے مشورہ کیا اور 3 مارچ کو اجلاس بلا لیا۔ ہم اس پر بھی آمادہ ہو گئے لیکن واضح کر دیا کہ چھ نکات پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔
دوسری طرف بھٹو نے ڈیڈ لاک پیدا کر دیا اور کہا کہ اگر یہ اجلاس ہوا تو مغربی پاکستان کو جام کر دیا جائے گا۔ ان دھمکیوں کے باوجود اجلاس کی تیاریاں جاری رہیں۔ لیکن پھر اجلاس ملتوی کر کے گول میز کانفرنس بلا لی گئی۔ کیسی گول میز کانفرنس؟ کیا میں ایسی کانفرنس میں اْن لوگوں کے ساتھ بیٹھوں جنھوں نے میری ماؤں اور بہنوں کی گود اجاڑی ہے؟
اس کے بعد میں نے مجبور ہو کر تحریک عدم تعاون (سول نافرمانی) کی تحریک شروع کر دی۔ پھر مجھ پر اور بنگالیوں پر الزامات کی بھرمار کر دی گئی۔ اب 25 مارچ (1971ء) کو ایک بار پھر (قومی اسمبلی کا)اجلاس بلا لیا گیا ہے۔ اس اجلاس میں شرکت کرنی ہے یا نہیں، یہ فیصلہ ہم بعد میں کریں گے، پہلے ہمارے چار مطالبات تسلیم کیے جائیں۔‘
انھوں نے اس موقع پر جو مطالبات پیش کیے، وہ اس طرح تھے:
مارشل لا فی الفور ختم کیا جائے
فوج کو فوری طور پر بیرکوں میں واپس بھیج دیا جائے
عوام کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے
اقتدار فوری طور پر عوام کے منتخب نمائندوں کو منتقل کیا جائے۔
یہ ایک لمبی تقریر ہے اور اس میں سول نافرمانی سمیت اور بہت سے اعلانات ہوئے۔ آزادی کے نعرے لگے، بنگلہ دیش کے نعرے بلند ہوئے مگر مغربی پاکستان کے رہنے والوں کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ نتیجہ کیا ہوا ملک دو لخت ہو گیا۔ آج یہ سوچنے کی ضرورت موجود ہے کہ ہم نے اتنے بڑے حادثے سے بھی سبق نہیں سیکھا اور یقینی طور پر نہیں سیکھا ورنہ اس سانحہ کے محض چھ برس بعد فوج ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ نہ کرتی۔ آخر ہم کب سبق سیکھیں گے۔