وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حواری ہر دوسرے دن یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے ۔ اور اب تو ان کے وزراء یہ بھی کہہ چکے ہیں اگر دوائیاں کچھ مہنگی ہو گئی ہیں تو کیا فرق پڑتا ہے یقینا انہیں فرق نہیں پڑتا عوام کو پڑتا ہے ان وزیر صاحب کو چاہئے کہ کسی دن سرکاری ہسپتال کا دورہ کریں اور لوگوں سے پوچھیں انہیں علم ہوجائے گا کہ دوائیاں مہنگی ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں یہ ہضم نہیں ہو رہا کہ پاکستان دنیا کا سستا ترین ملک ہے ۔شاید اسی لئے وہ ہر اقدام کرتے ہیں جس سے یہ اعزاز پاکستان کے پاس نہ رہے ،ہو سکتا ہے انہیں یہ خوف ہو کہ کہیں سستا ترین ہونے کا کریڈٹ کہیں ماضی کی حکومتوں کو نہ چلا جائے جبکہ وہ تو ہر غلط اقدام کا ذمہ دار ماضی کی حکومتوں کو ٹھراتے رہے ہیں ۔اس سلسلے میں وہ نجانے کہاں کہاں سے اعداد وشمار لاتے رہے ہیں جن میں سے اکثر کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں نکلا ۔حکومت آنے سے قبل اسد عمر اور دوسرے وزراء یہ کہتے تھے کہ 200 ارب پاکستانیوں کے بیرون ملک جمع ہیں جونہی ہماری حکومت آئے گی ہم فوری طور پر واپس آجائیں گے ۔لیکن جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت آئی اسد عمر کو تسلیم کرنا پڑا کہ ان کے پاس غلط اعداد و شمار ہیں ۔اسی طرح سے بہت سے ایسے اعدادو شمار تھے جن کے بارے میں علم ہوا کہ سب غلط تھے یعنی قوم سے ہر جگہ غلط بیانی سے کام لیا گیا۔اسد عمر کو یہ بھی اعتراف کرنا پڑا کہ نہ صرف 200 بلین ڈالر کے اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا بلکہ سوئس بینکوں میں جمع پاکستانی رقم کی صحیح رقم کے بارے میں کوئی سراغ نہیں ہے۔ملک کو معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے فنڈنگ کے انتظامات کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کی پوری ریاضت، سوئس بینکوں میں پڑے پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر واپس لانے، 10 ارب ڈالر کی سالانہ غیر قانونی پاکستان سے باہر منتقلی کی جانچ پڑتال اور 12 ارب روپے کی کرپشن روکنے پرتھی ۔
ہمارا المیہ شاید یہ ہے کہ موجودہ حکومت سے تعلق رکھنے والوں میں سے اکثر کا تعلق کسی نہ کسی طرح بیرون ملک سے ہے جہاں سے انہیں ڈالروں کی شکل میں پیسے آتے ہیں جب بھی ڈالر مہنگا ہوتا ہے ان کی آمدنی میں اضافہ ہو جاتا ہے اسی طرح بیرون ملک میں رہنے والے بھی خوش ہیں کہ روزانہ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے ان کا فائدہ ہو رہا ہے لیکن شاید حکومت سمیت کسی کو نہیں علم کہ بیس کروڑ سے زائد پاکستانی ڈالر مہنگا ہونے سے مہنگائی کی چکی میں خوب پس رہے ہیں ۔صرف آج ادارہ شماریات کی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق رواں ہفتے کے دوران دال مسور، دال چنا، دال مونگ اور صابن سمیت 19 اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔مہنگائی کی ماری عوام پر ایک اور وار، فی یونٹ بجلی کی قیمت میں پونے 5 روپے کا اضافہ رپورٹ کے مطابق چینی، آٹا، چکن، آلو، ٹماٹر، گڑ، انڈے، سرسوں کا تیل اور ایل پی جی کی قیمتوں میں کمی ہوئی جبکہ 23 اشیا ء کی قیمتوں میں استحکام رہا۔اور ابھی تو بجلی مزید مہنگی ہونے کی خبر بھی آ چکی ہے۔
موجودہ حکومت کو تقریبا ساڑھے تین سال ہو چکے ہیں اس دوران وہ کوئی بھی ایسا کام کرنے میں ناکام رہی جس سے عوام کو کوئی ریلیف مل سکے ہاں البتہ ایسے کاموں کی فہرست بہت لمبی ہے جن سے عوام کو ریلیف تو نہیں تکلیف ضرور ملی ۔ یہ حقیقت ہے کہ اس وقت عوام سب سے زیادہ مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں پیٹرولیم مصنو عات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ پاکستان ٹرانسپورٹرز ایسوسی ایشن نے کرائے بڑھا دئیے ہیں اس طرح آٹا ، چینی ، گھی ، سبزیوں ، مٹن ، بیف ، اور مشرو بات سمیت تمام اشیائے خوردو نوش کے نرخوں میں بھی از خود اضافہ ہو گیا ہے ۔ڈالر 180 کو چھو چکا ہے اور تیزی سے 200کا عدد چھونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ حتی کے حکمرانوں نے عوام کو دیوار کیساتھ لگانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اس صورتحال میں موجودہ اپوزیشن بھی فیل ہو چکی ہے اسے عوام سے زیادہ اپنے مقدمات میں دلچسپی نظر آتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ عوام اس سے بھی مایو س ہو چکے ہیں اور کسی ایسے لیڈر کی راہ دیکھ رہے ہیں جو صحیح معنوں میں عوام کا درد سمجھتا ہو اگر ایسا کوئی لیڈر میدان میں ہوتا تو یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت میں اتنی سکت نہیں کہ وہ اس کا مقابلہ کر سکتی چاہے اس کا صفحہ کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہوتا ۔
صحیح معنوں میں کوئی عوامی لیڈر میدان میں ہو تا تو حکومت دس دن اس کے ایجی ٹیشن کے سامنے نہیں ٹہر سکتی تھی کیو نکہ پہلے عام آدمی سڑکوں پر آ کر حکمرانوں کو کوسنے دے رہا ہے اب صنعت کار، تاجر برادری اور دیگر طبقات زندگی کے لوگ بھی حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ۔ مختلف شعبوں کے سرکاری ملازمین بشمول ڈاکٹر ز ،نر سز اساتذہ پہلے ہی سڑکوں پر سراپا احتجاج نظر آ رہے ہیں جب ملازمین کی تنخواہوں میں ان کے گھر کا بجٹ پورا نہیں ہو گا اور یو ٹیلٹی بلز کی ادائیگی اور اپنے بچوں کی تعلیم و صحت کے اخرا جات پورے کرنا ان کیلئے نا ممکن ہو جائیگا تو پھر ان کے پاس احتجاج کے سوا کیا راستہ بچے گا اس لئے آنے والے حالات حکمران طبقات کیلئے قطعاً ساز گار نظر نہیں آ رہے اور عوام کے ذہنوں میں جو لاوا پک رہا ہے وہ خطر ناک صورت اختیار کر سکتاہے جو ملک کے لئے ٹھیک نہیں ۔اس سب کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے ۔حکومتوں کا کام عوام کو ریلیف دینا ہوتا ہے لیکن یہاں گنگا شاید الٹی بہہ رہی ہے ۔حکمران جن کام یہ ہونا چاہئے کہ اگر پاکستان دنیا کا سب سے سستا ترین ملک ہے تو اسے مزید سستا کرنا کے لئے اپنا کردار ادا کریں ان کی آمدنی میں اضافے کے لئے کام کریں لیکن پتہ نہیں کیوں یہ لوگ تو اسے مہنگا ترین ملک کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔آمدنی میں اضافے والی بات کو تو چھوڑ ہی دیں ۔یہ پہلے حکمران ہیں جو اشیاء مہنگی کر کے فخریہ انداز میں پریس کانفرنس کرتے ہیں اور کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے کیونکہ ان کے اپنے معاملات ڈالرز میں ہیں جو مہنگا ہونے سے ان کی خوشحالی میں اضافہ ہو رہا ہے باقی عوام جائیں بھاڑ میں شاید یہی ان کا ٹارگٹ ہو گا۔انہیں کم از کم اس بات کا خیال کر لینا چاہئے کہ اب تو تنخواہ میں وزیر اعظم کا بھی گزارہ نہیں ہوتا اور اس بات کا وہ برملا اظہار کر چکے ہیں۔