قائداعظم سے کوئٹہ میں جسٹس جناب قاضی فائز عیسیٰ کے والد قاضی محمد عیسی سے ملاقات کے حوالے سے ایک واقعہ ہے۔ قاضی صاحب قراقلی ٹوپی پہنے ہوئے تھے جو قائد اعظم کو بہت پسند آئی قائد نے بھی کی اور ٹوپی کے متعلق پوچھا۔ قاضی صاحب نے بتایا کہ پاس ہی بازار ہے وہاں سے ملتی ہے قائداعظم ٹوپی دیکھنے ان کے ساتھ بازار چلے گئے۔ اچھی دوکان سے ٹوپیاں دیکھیں ایک دکاندار سے پسند آنے والی ایک ٹوپی کی قیمت پوچھی۔ پہلے تو قاضی صاحب نے کہا کہ قیمت کو چھوڑیئے آپ ٹوپی لے لیں۔ پھر دکاندار قیمت بتانے سے احتراز کرنے لگا کہ آپ میری طرف سے تحفہ رکھ لیں۔ قائد نے کہا ایسے تو میں تو یہ ٹوپی نہیں لوں گا۔ پھر انہوں نے قاضی صاحب سے پوچھا کہ اس کی قیمت کیا ہوگی قاضی صاحب نے بتایا کہ زیادہ سے زیادہ پچاس روپے ہے۔ قائداعظم اپنے پاس نقد پیسے نہیں رکھا کرتے تھے انہوں نے دو سو روپے کا چیک دکاندار کو دیا۔ قائداعظم کی شخصیت اور مزاج کے تحت زیادہ بات نہیں ہو سکتی تھی۔ دکاندار نے چیک وصول کیا اور کہا کہ یہ میری طرف سے مسلم لیگ فنڈ میں دے دیا جائے میں یہ جماعت کو فنڈ دیتا ہوں۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم کے متعلق جسٹس ریٹائرڈ وجیہ الدین نے کہا کہ جہانگیرترین بنی گالا کے گھر کا خرچہ پہلے 30 لاکھ ماہانہ پھر 50 لاکھ ماہانہ دیا کرتے تھے۔ جب بات میڈیا، ٹاک شوز، یوٹیوب، سوشل میڈیا پر لاہور میں سموگ اور فوگ کی طرح پھیل گئی تو حکومت نے جسٹس وجیہہ الدین کے بیان پر سخت رد عمل کا اظہار کیا کہ سب باتیں جھوٹ ہیں۔ آرٹیکل 9 پر عمل درآمد اور ہتک عزت کا مقدمہ کریں گے۔ دوسری طرف جسٹس وجیہ الدین کہتے ہیں ایسا پیسا نقد دیا جاتا ہے۔ چاہے مقدمہ کریں میں اپنے بیان پر قائم ہوں۔ یہ تو صورت حال ہے حکومت جو کہ کابینہ کے وزیر اعظم کی ترجمان ہے مگر میں حیران ہوں کہ ابھی بات نکلی نہیں، آگ بھڑکی نہیں، ابھی اس کی تصدیق اہمیت اور حیثیت کا تعین باقی تھا کہ ایک دانشوروں کا پینل معروف ٹی وی چینل پر آگیا اور معروف پروگرام میں اس معاملہ پر رائے زنی شروع کر دی۔ یہ یاد رہے کہ ان کے تجزیے، تبصرے جو یہ پچھلے پانچ سال سے کر رہے ہیں سب کے سب الٹ ہوئے۔
کچھ نے اپنے آپ کو لعن طعن کی کچھ نے تجزیات واپس لے لئے، کچھ نے سابق تجزیہ کے برعکس تبصرہ اور تجزیہ کرکے اپنے دانشوری کی پگڑی کو ڈرائی کلین کر کے دوبارہ باندھنے کی کوشش کی۔ فرماتے ہیں "سیاست کی دنیا میں لوگ اپنے لیڈر کی مدد کرتے ہیں"۔ پھر فردا فردا رائے زنی کی کہ جسٹس وجیہہ الدین نستعلیق آدمی ہیں لیکن بات ہلکی کر گئے ایسی باتیں سچ بھی ہوں تو امانت ہوتی ہیں اور ان کا انکشاف خیانت کے زمرے میں آتا ہے۔ عمران خان کے ذاتی خرچ نام کی کوئی چیز نہیں ہے اس نے زندگی میں کسی کو چائے کھانا پوچھا۔ دوسرے صاحب فرماتے ہیں وجیہ الدین پرفیکشنسٹ ہیں لیکن سوسائٹی پرفیکشنسٹ نہیں۔ سیاست کی دنیا میں لوگ اپنے لیڈر کی مدد بھی کرتے ہیں اس میں فارن فنڈنگ بھی چلتی ہے، جہانگیر ترین سے منگوائے گئے پیسے بھی چلتے ہیں، ان سے عمران خان کا گھر بھی چلتا ہے۔ عمران خان پر جسٹس وجیہہ الدین کا الزام سنگین نوعیت کا ہے۔ تیسری شخصیت فرمانے لگی کہ عمران خان پر عام تاثر ہے کہ وہ اے ٹی ایمز پر چلتے ہیں۔ چوتھے جو مخولیے بھی مشہور ہیں، کہنے لگے کہ جسٹس وجیہہ الدین کی وزیر اعظم کے متعلق بات بغض عمران خان ہے۔ جسٹس وجیہہ الدین پارٹی سے بھی اختلافات کے بعد نکلے تھے۔ اس دانشور کا کہنا تھا، مجھے حیرت ہے کہ جتنے پرفیکشنسٹ ہیں پارٹی میں ہوتے ہوئے تو چپ رہتے ہیں پارٹی سے نکلتے ہی بھونڈے الزامات لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ ہاؤس آف شریف اور ہاؤس آف زرداری پر عوام کا پیسہ لوٹنے کے الزامات ہیں جبکہ عمران خان پر ذاتی دوستوں سے پیسہ لینے کے الزامات ہیں دونوں میں موازنہ نہیں ہوسکتا۔
میں نے اپنے کسی کالم میں کبھی کسی خبر کو یوں نقل نہیں کیا مگر یہ جو رائے عامہ کے یقین کرنے کے دعویدار ہیں دراصل رائے عامہ کو بہکاتے ہیں۔ کسی شخص نے جسٹس وجیہہ الدین کے بیان کا موازنہ نہیں کیا مگر یہ موازنہ کی بحث آخری کردار نے چھیڑی۔ ان میں سے اکثریت جو صبح دوپہر شام بلکہ 24 گھنٹے عمران خان اور پی ٹی آئی کا ترانہ لگائے رکھتی تھی سب کے سب یوٹرن لے چکے ہیں تاکہ آئندہ بھی حسب حکم مقتدرہ چورن بیچا جا سکے۔ ابھی ایک معاملہ سامنے آیا نہیں جس پر بات کی گئی اس کا موقف سامنے نہیں آیا یہ بیٹھ گئے قوم کا وقت برباد کرنے اور رائے عامہ کو اپنی خواہش کے مطابق چلانے۔
اگر زرداری صاحب یا میاں صاحب کو کوئی پیسہ، چیز، گھر، پلاٹ گفٹ کیا جا سکے تو ان "دانشوروں" کے تب بھی یہی خیالات ہوں گے؟ جو اوپر عمران خان کے متعلق بیان کئے گئے۔ دراصل ہمارے ہاں اول تو دانش فروش ہیں دانشور نہیں، انہوں نے میڈیا کے ذریعے عوامی شعور کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ سابق چیف جسٹس کی بیٹی کی شادی پر اربوں روپے کے تحائف، جج، جرنیل، بیوروکریٹ کے مقابلے میں سیاستدانوں کے لیے تحفہ بازی بہت کم ہے۔ سیاستدان اقتدار میں ہو تو لوگ تحفے تحائف دیتے ہیں۔ بیوروکریٹ کا نام، عہدہ، اقتدار، اعلی تعیناتی نہ بھی ہو تو لوگ اتنا کچھ دیتے ہیں کہ عام آدمی کیا خاص آدمی کی سوچ سے بھی باہر ہے۔ اتنے واقعات ہیں بیان کرنے لگوں تو کتابیں کم پڑ جائیں۔ ایک بیوروکریٹ ریٹائرڈ ہوئے ابھی اقتدار کے دنوں کا لوگوں کا دیا ہوا پڑا تھا، جونہی ختم ہوا تو اپنی جیب سے کھانے پینے کے لئے منگوانا پڑ گیا۔ ایک دوست جو ایسے ہی انہیں ملنے آئے ہوئے تھے ان سے پوچھنے لگے۔ کہ بھائی جان بڑا گوشت اچھا کہاں سے ملتا ہے اور کس بھاؤ ہے؟ وہ دوست حیران ہوا کہ اس کو گوشت کے بھاؤ کا علم نہیں دس نوکر اس کے گھر میں ہیں۔ ان میں سے کوئی نہیں جانتا کہ گوشت کہاں سے اچھا ملتا ہے؟ بدنصیبی سے یہ کہانی ہر ادارے، شعبے، اقتدار کی راہداریوں میں جن کا سکہ چلتا ہے سب میں جاری ہے۔ مقتدر لوگوں کو میں قسم کھانے کو تیار ہوں ضروریات زندگی کی قیمتوں کا اندازہ بالکل نہیں۔ سب لوگ دیتے ہیں یہ دنیا میں پلنے آئے ہوئے ہیں۔ عیدین اور تہواروں پر کیک، مٹھائیاں، فروٹ کی پیٹیاں، ملبوسات تک گیٹ سے باہر پڑے ہوتے ہیں۔ جونہی اقتدار ختم ہو، تعیناتی نہ رہے تو عام زندگی کیا خاص دنوں پر بھی کوئی ان کی طرف نہیں دیکھتا۔ لوگ بھی اقتدار کو سلام کرتے ہیں۔ یہ ہماری معاشرت ہے، بدنصیبی ہے، ظلم ہے اور برائی کی اصل جڑ ہے کے ہم ایک مفت بر معاشرت میں زندہ ہیں، مفت بر حاکم ہیں، مفت بر قانون نافذ کرنے والے ہیں، مفت بروں کی بہار ہے بلکہ موج ہے۔ عوام زندگی کی بنیادی اور لازمی ضروریات سے محروم ہیں اور حاکم ہیں کہ 400 ایکڑ کے گھر کیسے چلتے ہیں جبکہ کوئی ذریعہ آمدن بھی نہیں۔ نیب آمدن سے زائد اثاثوں پر تو ہر ایک کو پکڑتا ہے آمدن سے زائد اخراجات والوں کے خلاف بھی کارروائی کرے گا؟
عوام دوائیوں سے محروم ہیں، بجلی سوئی گیس کے بلوں، انصاف کے لیے بھکاری ہیں۔ حکمران طبقے لوگوں کے مال پر پل رہے ہیں دراصل لوگ بھی انویسٹرز ہوتے ہیں۔ پھر جب ڈالر، پٹرول، چینی، آٹا کا ٹیکہ لگاتے ہیں تو مافیا مافیا پکار اٹھتے ہیں۔ آپ اندازہ لگا لیں 22 کروڑ عوام کے اخراجات اور پیسے کہاں لگتے ہیں؟ صرف گھر چلانے پر اور دوسری جانب دنیا بھر کی نعمتیں حاکموں کے در و دہلیز پر رل رہی ہیں کیا یہ معاشرت اور معاشرہ زندہ رہ سکتا ہے؟
ہماری درگاہیں چلانے والے ڈالروں میں ارب پتی ہیں۔ جو بزرگان ہوئے ہیں ان کا مطمع نظر کچھ اور تھا آگے گدی نشینوں کا اور ہے۔ کہاں قراقلی ٹوپی تحفہ نہ لینے والا کہاں سیکڑوں ایکڑوں کے گھر کہاں سے چلتے ہیں؟ کا علم نہ رکھنے والے۔ کہاں ہزاروں ایکڑ ہاریوں کو دے دینے والے گریٹ بھٹو اور کہاں ان کے آج کے پیروکار۔ دراصل یہ میڈیا والے اس لیے تحفظ کر رہے ہیں کہ ان کی اپنی مفت بریاں بند نہ ہو جائیں۔ ان کا تعلق 22 کروڑ عوام نہیں ایک کروڑ میں سے اس طبقے سے ہے جو صاحب اقتدار، گفتار اور قابل ذکر ہے۔