حلقہ احباب میں سے ایک گویا ہوئے کہ ان کے بزرگوں کی زمین کا ایک دیوانی کیس مقامی عدالت میں زیر سماعت تھا،جس طرح کا سلوک ان عدالتوں میںباقی سائلین سے ہوتا ایسے ہی کے یہ بھی مستحق قرار پائے، تنگ آمد بجنگ آمد کے طور وہی حربہ اختیار کیا گیا جو سبھی کیا کرتے ہیں،نتیجہ ان کے حق میں نکلا، لہذا برزگ وار نے ضروری سمجھا کہ منصف کی پذیرائی کے لئے ان کے در پر حاضری دی جائے انھوں نے حسب روایت مٹھائی کا ڈبہ ہاتھ میں لیا اِنکے در پر دستک دی، موصوف سائل کی آمد کا مقصد سمجھ گئے،انھیں دیوان خانے میں بٹھایاجونہی مٹھائی کا ڈبہ اِنکے سامنے آیا تو انھوں نے اِنتہائی ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ سکول میں بچے کے پاس ہونے اور زمین کا مقدمہ جیتنے میں بڑا فرق ہوتا ہے، ایسے مقدمات جیت کر کوئی دوکان یا زمین نام کروائی جاتی ہے،یہ منصف سمجھ رہے تھے کہ انھوں نے آئین کے آرٹیکل37ڈی کے تحت سستا اور فوری انصاف دے کر دستوری ذمہ داری پوری کر دی تو پھر انھیں ایسی انداز میں ریوارڈ ملنا چاہئے ۔
شائد اسی وجہ سے یہ اصطلاح وجود میں آئی کہ وکیل کرنے کی بجائے جج کرنا لینا زیادہ فائدہ میں رہتا ہے، عدلیہ کے اعتبار سے بھی یہاں بھرے بریف کیس کی کہانیاں زیر گردش رہی ہیں، عدلیہ کے منصفین نجانے یہ کیوں بھول گئے کہ کچھ عالمی’’ منکر نکیر‘‘ اِنکی ساری حرکات و سکنات کو مانیٹر کر رہے ہیںدکھائی یوں دیتا ہے کہ عالمی ادارہ بھی فراہمی انصاف کے قومی اداروں کی ’’حماقتوں ‘‘ کی تاب نہیں لا سکا، اس نے سرکار اور مذکورہ ادارہ جات کو ہی آئینہ دکھاکر انھیں راہ راست پر لانے کی کچھ سعی کی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ میں پولیس، عدلیہ کے علاوہ دیگر اداروں کی لاقانونیت اور بدعنوانی کے اعتبار سے رینکنگ کی گئی ہے، اس دوڑ میں حسب سابق پولیس کا محکمہ ہی اول قرار پایا ہے اس کے بعد عدلیہ اور پھر باقی اداروں کے بلند درجات کا تذکرہ ملتا ہے رپورٹ کی اشاعت کے بعد، وزیر اطلاعات نے اپنی ٹویٹ میں سرکار اور اداروں کو اصلاح احوال کی دعوت دی ہے۔
گذشتہ دنوں عدلیہ کے حوالہ سے یوان بالا میں بھی باز گشت سنائی دی ، جماعت اسلامی کے سنیٹر مشتاق احمد نے اس کی کارکردگی پر کئی سوالات اٹھا دیئے انکی یہ وڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی ہے۔اس کے بعد یہ معاملہ سٹینڈنگ کمیٹی کوتجاویز کے لئے بھیج دیا گیا۔
کچھ عرصہ قبل عدالت عظمیٰ نے بھی ایک سروے کروایا تھا،جس میں مذکورہ عدالت نے اعتراف کیا کہ بہت سے درخواست گذار ایسے ہیں جن کو اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے بارے میں فیصلہ سننے کا موقع نہیں ملتا، اس سروے میں یہ بھی لکھا گیا کہ جائیداد کے حوالہ سے دائرکئے گئے مقدمات کو فیصلہ ہونے تک 30 سال کا کٹھن سفر کرنا پڑتا ہے، عوامی سطح پر عدلیہ کے بارے میں ایک را ئے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ عدالت کے ایوان کا قفل کھولنے کے لئے سونے کی چابی ہونا لازم ہے۔
مذکورہ سنیٹر نے جو سوال اٹھایا ہے وہ یہ بھی ہے کہ ہماری عدلیہ کے منصفین کو جو مراعات حاصل ہیں ان کا شمار دنیا کے پہلے دس ممالک میں ہوتا ہے مگر انصاف کی فراہمی کے لحاظ سے ہماری عدلیہ180 ممالک میں سے124 ویں نمبر ہے یہ کارکردگی خود ایک سوالیہ نشان ہے۔اگر عدلیہ کا کوئی خود احتسابی کا نظام پایا جاتا ہے تو پھر 21 لاکھ مقدمات زیر التواء کیوں ہیں؟ اب تلک ہماری عدلیہ نے کون سے بڑے مافیا کو پکڑا اور اسے بے نقاب کیا ہے؟ کیا انصاف صرف صاحب ثروت ہی کا حق ہے؟
تلخ حقیقت یہ ہے کہ عوام دیگر حقوق پر تو سمجھوتہ کر سکتے ہیں، بھوک ،مہنگائی برداشت کر لیتے ہیںمگر انصاف کی عدم فراہمی معاشرہ میں اضطراب پیدا کرتی ہے، ناانصافی لاتی ہے ،طبقاتی تقسیم کو اور گہرا کرتی ہے، اس لئے حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ’’ظلم کے ساتھ کوئی حکومت اور ریاست قائم نہیں رہ سکتی‘‘عدلیہ میں بے انصافی کی ایک وجہ جج صاحبان کی تعداد میں کمی بھی بتائی جاتی ہے۔
انصاف فراہمی میں عدلیہ کے بعد جس ادارے کلیدی کردار ہے وہ محکمہ پولیس ہے، عالمی رپورٹ جو عوامی سروے پر مبنی ہے، اس کے مطابق سب سے زیادہ غم و غصہ عوام میں پولیس کے رویہ کے بارے میں پایا جاتا ہے، اس کا طریقہ واردات وہی ہے جو سامراجی عہد میں ہوتا تھا، آزادی نے اس کا کچھ نہیں بگاڑا ہے، یہ اب تلک اپنے آپ کو سامراجی اقتدار کا حصہ سمجھتی ہے، سرکار کی تمام تر کاوشوں کے باوجود عوام اور پولیس میں اب بھی خاصا فاصلہ پایا جاتا ہے، مذکورہ محکمہ کے افسران اس خلیج کو کم کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں، اب تلک اس کا خوف اس بات کی علامت ہے کہ یہ محکمہ عوام کے دل میں اپنی جگہ نہیں بنا سکا ہے،جبر اور تشدد کے روائتی طریقہ تفتیش کا نقصان یہ ہے عوام چاہنے کے باوجود جرائم کی روک تھام کے خاتمے میں پولیس سے تعاون کر نے کو تیار نہیں ہے،تفتیش میں سائنسی انداز اپنانے کی بجائے پولیس مقابلہ کو اولیت دینا ،اسکی اہلیت پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
جماعت اسلامی کے راہنماء ڈاکٹر فرید پراچہ اپنی کتاب’’ عمر رواں‘‘ میں رقم کرتے ہیں،کہ ان دنوں لاہور میں پولیس مقابلے عام تھے میرے ملنے والے کا ایک روز فون آیا کہ اسکا نواسہ جو غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث اور جیل میں ہے کو آج رات پولیس مقابلہ میں مار دیا جائے گا، فرید پراچہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ آپکو کیسے علم ہے اس نے کہا کہ فہرست میں اس کا نام ہے ،جواباً کہا کہ ایسی کوئی فہرست نہیں بنتی، جب اس نے اصرار کیا تو میں نے انتظامیہ سے پتہ کیا میرے لئے باعث حیرت تھا کہ اس وقت کے ایس ایس پی نے اسکی تصدیق کی اور لڑکے کا نام فہرست سے نکال دیا،اس کتاب میں انھوں نے پولیس کے کئی کارناموں کا ’’ذکر خیر‘‘ کیا ہے، جس میں ان کے دوست کی کار کی چوری بھی شامل ہے،جسکی تلاش کے لئے معروف کریمینل کی خدمات لی گئی تو اس نے پورے سسٹم کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ پولیس کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں، کار چوروں کے دو ٹھکانے تولاہور کے قریب اور بعض ایم این ایز کے ڈیرے ہیں جہاں پولیس چھاپہ نہیں مارتی ہے،شہر سے گاڑی باہر لے جانے کے لئے ناکوں پر منتھلی لگی ہوتی ہے،جب صوبائی صدر مقام کا یہ حال ہو تو باقی مقامات کی حالت کیا ہوگی؟
انصاف کی فراہمی قومی ضرورت ہی نہیں بلکہ امن و امان سرمایہ کاری، جرائم کی روک تھام،ظلم، زیادتی کے خاتمے،مساوات، عدل و انصاف کا قیام عالمی وقار کے لئے لازم ہے ۔
عدالتی تاریخ میں قابل قدر منصفین کے فیصلے آج بھی بولتے ہیں،انکا کردار سب کے لئے مشعل راہ ہے۔ وزیر اطلاعات کو محض ٹویٹ کرنے پر اکتفاء نہیں کرنا ہے ،بلکہ رپورٹ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لا کر ایسے نظام کو عملی جامہ پہنچانا چاہئے جو عام فرد کو بلا امتیاز اور بلا تاخیر انصاف فراہم کر سکے،نظریہ ضرورت سے لے کر بدعنوانی تک عدلیہ کے دامن پر لگے داغ کو صاف کرنا فرض بھی ہے ،عدلیہ پر قرض بھی،بصورت دیگر ہر شہری یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ منصفی کس سے چاہیں۔