دماغ اور ذہانت کا اپنا ایک مقام ہے۔ایک وقت تھا جب ذہین لوگوں کو قوم کا سرمایہ سمجھا جاتا تھا مگر اب حقیقت اس کے بر عکس ہے ہم جس دُنیا میں رہتے ہیں یہ ایک ایسی دُنیا ہے جہاں رہنے کا انتخاب بھی ہم بذات خود نہیں کرتے کیونکہ اب دُنیا کے دیکھنے کا طرز ڈھنگ بدل چُکا ہے۔کیونکہ اب ذہن لوگوں کو قوم کا سرمایہ نہیں بلکہ دولت کو ہی اپنا سرمایہ اور دولت کو ہی اپنا سب کچھ سمجھ لیا ہے۔اگر آپ کے پاس دولت ہے تو آپ کی خوشیوں اور کامیابیوں کی تعداد بڑھ جائے گی۔
کیونکہ ہم نے اپنی زندگی کا معیار اور میرٹ کو دولت کے پیرا میٹر سے سیٹ کر رکھا ہے۔یہ بات کسی قدر درست بھی ہے ۔آپ کی بہترین کارکردگی کا انحصار آپ کے ذہنی سکون پر بھی منحصر ہوتا ہے۔ذہنی سکون کی وجہ سے آپ تمام تر کام خوبصورت انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں ۔مثال کے طور پہ آپ بے روزگار ہوں آپ کا کوئی ذریعہ معاش نہ ہو اور آپ کی گھر داری ڈسٹرب ہو اور آپ کے بچوں کی سکول کی فیس ادا نہ کی ہو تو آپ یقینا ذہنی انتشار میں مبتلا ہو نگے ۔جب آپ مشکل وقت میں ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں تو آپ کوئی بھی زندگی کا کام صیح سے سر انجام نہیں دے پاتے خواہ
آپ ہر اُس کام کو کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں ۔
اس کی نسبت اگر آپ ڈپریشن کو خود سے الگ کرکے سوچیں اوراس مشکل سے نکلنے کا حل سوچیں اُس مشکل میں سے ہی ایک کے بعد ایک حل ہم کو ملے گا ۔کیونکہ انسان کے خیالات اور جذبات ہی انسان کی شخصیت کو بناتے اور بگاڑتے ہیں۔کیونکہ اگر منفی جذبات انسان کی خوشیوں کے لٹیرے ہیں ۔منفی جذبات انسان کو جسمانی طور پر بیمار کر دیتے ہیں اور انسانی زندگی کو مختصر کر دیتے ہیں۔
انسان کی زندگی میں پریشانی،بے چینی اور بے سکونی کا سبب کسی نہ کسی طرح منفی جذبات سے ضرور ہوتا ہے۔منفی جذبات ایسا زہر ہوتا ہے جو انسانی رشتوں تک کو برباد کر دیتا ہے مگر اب کے دور کی اگر ہم بات اگر کوئی پڑھا لکھا اور ذہین شخص اگر جاب تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کے لیے الگ الگ معیار سیٹ ہیں ایک تو سب سے پہلے اُس کے پاس کوئی سفارش ہونی چاہیے اگر اُس شخص کا تعلق عام طبقے سے اور بدقسمتی سے سفارش کرنے والا کوئی نہیں ہے تو اُس کے پاس دوسرا آپشن پیسہ بچتا ہے کہ وہ پیسے سے اپنی نوکری خرید لے۔اگر یہ آپشن بھی وہ شخص پوری نہیں کر سکتا تو پھر وہ اپنی ذہانت اور ڈگری کے ساتھ شخص بیچارہ محنت مزدوری کرنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔ایسے لاکھوں نوجوانوں کی مثالیں ہمارے معاشرے میں بھری پڑی ہیں۔
کئی ایسے بھی نوجوان ہم نے دیکھے ہیں جن کے پاس ذہانت اور ڈگری بھی ہوتی ہے ایسے نوجوان پیسہ اور سفارش نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے پاس دو ہی راستے بچتے ہیں یا تو وہ محنت مزدوری کریں یا پھر وہ حا لات سے تنگ آکر خودکشی کر لیتے ہیں۔آج جو اداروں کی بڑی بڑی پوسٹ کے اُوپر بیٹھے ہیں کیا وہ اپنے عہدے کے ساتھ انصاف کر رہے ہیں ۔؟میں نے بہت سے ایسے لوگ ایسے عہدوں پر دیکھے ہیں جو اس عہدے کے قابل بھی نہیں ہوتے مگر وہ لوگ کسی بڑی سفارش یا پیسے کی بدولت اس عہدے پر فائز ہوتے ہیں۔ مگر میں نے آج تک کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جس نے محنت کی ہو اور اس کی محنت ضائع ہو گئی ہو۔ کامیابی مسلسل محنت سے ملتی ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگ محنت کم کرتے ہیں اور ان کو منزل جلد مل جاتی ہے۔ ایسے لوگ کم ہی ہوتے ہیں۔ کامیابی کے حصول کیلئے یہ ضروری ہے کہ آپ اپنی محنت کو جاری رکھیں ایک دن ایسا آئے گا کہ لوگ آپ کی محنت کو ماننا شروع کر دیتے ہیں۔ اس لئے کامیابی کیلئے محنت کا جاری رکھنا بہت ضروری ہے۔