نئی دہلی: بھارت میں حکمراں بی جے پی نے ریاست گجرات میں حکومت مخالف رجحانات، نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کے خلاف عوامی برہمی، نئی قوت کے ساتھ مقابلے میں آنے والی کانگریس پارٹی اور ریاست کی سیاست میں ابھرنے والے تین نوجوانوں ہاردک پٹیل، جگنیش میوانی اور الیش ٹھاکور کے چیلنجوں کو شکست دیتے ہوئے ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ وہ مسلسل چھٹی مرتبہ الیکشن میں کامیاب ہوئی ہے۔ وہ وہاں 22 برسوں سے اقتدار میں ہے۔
اسمبلی کی 182 نشستوں میں سے بی جے پی کو 99 پر سبقت حاصل ہے۔ تاہم یہ تعداد گذشتہ تعداد کے مقابلے کم ہے۔ 2012 میں اسے 115 نشستیں ملی تھیں۔ حکومت سازی کے لیے 92 نشستیں درکار ہیں۔ کانگریس کو 79 پر سبقت حاصل ہے۔ گذشتہ الیکشن میں اسے 61 نشستیں حاصل ہوئی تھیں۔گجرات میں جو کہ وزیر اعظم نریندر مودی کا گڑھ ہے، بی جے پی کو زبردست مقابلے کا سامنا تھا۔ کانگریس کے نو منتخب صدر راہل گاندھی نے انتہائی جاں فشانی کے ساتھ انتخابی مہم چلائی تھی۔
وزیر اعظم نے بھی اپنے وقار کے تحفظ کے لیے پوری قوت جھونک دی تھی۔دوسری ریاست ہماچل پردیش کی 68 رکنی اسمبلی میں بی جے پی کو 44 پر سبقت حاصل ہے اور کانگریس کو 21 پر۔ وہاں کانگریس برسراقتدار تھی۔ بی جے پی نے یہ ریاست اس سے چھین لی۔ تاہم اس کے وزیر اعلی کے امیدوار پریم کمار دھومل الیکشن ہار گئے۔اب بی جے پی ملک کی 29 ریاستوں میں سے 19 پر قابض ہو گئی ہے۔ اس سے قبل کوئی بھی جماعت اتنی ریاستوں میں برسر اقتدار نہیں تھی۔ 24سال قبل کانگریس 18 ریاستوں میں حکومت میں تھی۔
نریندر مودی اور امت شاہ نے اس کامیابی کو بی جے پی حکومت کے ترقیاتی ایجنڈے اور بہتر حکمرانی کی جیت قرار دیا۔راہل گاندھی نے پارٹی کی شکست تسلیم کر لی اور اپنے پارٹی کارکنوں کی یہ کہتے ہوئے تعریف کی کہ انہوں نے بی جے پی کے مقابلے میں کافی وقار کے ساتھ الیکشن لڑا۔ریاستی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث بننے والے ہاردک پٹیل اور کانگریس کے بعض لیڈروں نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی کارکردگی پر شبہ ظاہر کیا اور الزام عائد کیا کہ بی جے پی نے مشینوں میں چھیڑ چھاڑ کرکے کامیابی حاصل کی ہے۔ بی جے پی نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔
اس سے قبل اترپردیش کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی جیت کے موقع پر بھی اپوزیشن نے اسی قسم کے الزامات لگائے تھے جن کو الیکشن کمیشن اور بی جے پی نے مسترد کر دیا تھا۔